Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 2
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُؕ
اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْحَيُّ : ہمشہ زندہ الْقَيُّوْمُ : سنبھالنے والا
اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں زندہ ہے سب کا تھامنے والاف 1
1  نجران کے ساٹھ عیسائیوں کا ایک موقرو معزز وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس میں تین شخص عبدالمسیح عاقب بحیثیت امارت وسیادت کے، ایہم السید بلحاظ رائے و تدبیر کے، اور ابو حارثہ بن علقمہ باعتبار سب سے بڑے مذہبی عالم اور لاٹ پادری ہونے کے عام شہرت اور امتیاز رکھتے تھے۔ یہ تیسرا شخص اصل میں عرب کے مشہور قبیلہ " بنی بکر بن وائل " سے تعلق رکھتا تھا۔ پھر پکا نصرانی بن گیا۔ سلاطین روم نے اسکی مذہبی صلابت اور مجد و شرف کو دیکھتے ہوئے بڑی تعظیم و تکریم کی۔ علاوہ بیش قرار مالی امداد کے اسکے لئے گرجے تعمیر کئے اور امور مذہبی کے اعلیٰ منصب پر مامور کیا۔ یہ وفد بارگاہ رسالت میں بڑی آن بان سے حاضر ہوا اور متنازع فیہ مسائل میں حضور سے گفتگو کی جس کی پوری تفصیل محمد بن اسحاق کی سیرۃ میں منقول ہے۔ سورة " آل عمران " کا ابتدائی حصہ تقریباَ اسّی نوے آیات تک اسی واقعہ میں نازل ہوا عیسائیوں کا پہلا اور بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) بعینہٖ خدا یا خدا کے بیٹے یا تین خداؤں میں سے ایک ہیں۔ سورة ہذا کی پہلی آیت میں توحید خالص کا دعویٰ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی جو صفات " حیی قیوم " بیان کی گئیں وہ عیسائیوں کے اس دعوے کو صاف طور پر باطل ٹھہراتی ہیں۔ چناچہ حضور ﷺ نے دوران مناظرہ میں ان سے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ حییُ (زندہ) ہے جس پر کبھی موت طاری نہیں ہوسکتی۔ اسی نے تمام مخلوقات کو وجود عطا کیا اور سامان بقا پیدا کر کے انکو اپنی قدرت کاملہ سے تھام رکھا ہے۔ برخلاف اسکے عیسیٰ (علیہ السلام) پر یقینا موت و فنا آکر رہے گی۔ اور ظاہر ہے جو شخص خود اپنی ہستی کو برقرار نہ رکھ سکے دوسری مخلوقات کی ہستی کیا برقرار رکھ سکتا ہے۔ " نصاریٰ " نے سن کر اقرار کیا (کہ بیشک صحیح ہے) شاید انہوں نے غنیمت سمجھا ہوگا کہ آپ اپنے اعتقاد کے موافق " عیسیٰ یاتی علیہ الفناء " کا سوال کر رہے ہیں یعنی عیسیٰ پر فنا ضرور آئیگی، اگر جواب نفی میں دیا تو آپ ہمارے عقیدہ کے موافق کہ حضرت عیسیٰ کو عرصہ ہوا موت آچکی ہے۔ ہم کو اور زیادہ صریح طور پر ملزم اور مفحم کرسکیں گے۔ اس لئے لفظی مناقشہ میں پڑنا مصلحت نہ سمجھا۔ اور ممکن ہے یہ لوگ ان فرقوں میں سے ہوں جو عقیدہ اسلام کے موافق مسیح (علیہ السلام) کے قتل و صلب کا قطعا انکار کرتے تھے اور رفع جسمانی کے قائل تھے جیسا کہ حافظ ابن تیمیہ نے " الجواب الصحیح " میں اور " الفارق بین المخلوق و الخالق " کے مصنف نے تصریح کی ہے کہ شام و مصر کے نصاریٰ عموما اسی عقیدہ پر تھے مدت کے بعد پولوس نے عقیدہ صلب کی اشاعت کی۔ پھر یہ خیال یورپ سے مصر و شام وغیرہ پہنچا بہرحال نبی کریم ﷺ کا ان عیسیٰ اتی علیہ الفناء کے بجائے یاتی علیہ الفناء فرمانا، درآں حالیکہ پہلے الفاظ تردید الوہیتہ مسیح کے موقع پر زیادہ صاف اور مسکت ہوتے۔ ظاہر کرتا ہے کہ موقع الزام میں بھی مسیح (علیہ السلام) پر موت سے پہلے لفظ کا اطلاق آپ نے پسند نہیں کیا۔
Top