Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 35
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
اِذْ : جب قَالَتِ : کہا امْرَاَتُ عِمْرٰنَ : بی بی عمران رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نَذَرْتُ : میں نے نذر کیا لَكَ : تیرے لیے مَا : جو فِيْ بَطْنِىْ : میرے پیٹ میں مُحَرَّرًا : آزاد کیا ہوا فَتَقَبَّلْ : سو تو قبول کرلے مِنِّىْ : مجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
جب کہا عمران کی عورت نے کہ اے رب میں نے نذر کیا تیرے جو کچھ میرے پیٹ میں ہے سب سے آزاد رکھ کر سو تو مجھ سے قبول کر بیشک تو ہی ہے اصل سننے والا جاننے والاف 10
10  عمران کی عورت کا نام ہے " حنہ بنت فاقوذا " اس نے اپنے زمانہ کے رواج کے موافق منت مانی تھی کہ خدا وندا ! جو بچہ میرے پیٹ میں ہے میں اسے " مُحرر " (تیرے نام پر آزاد کرتی ہوں) اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ تمام دنیاوی مشاغل اور قید نکاح وغیرہ سے آزاد رہ کر ہمیشہ خدا کی عبادت اور کلیسا کی خدمت میں لگا رہے گا۔ اے اللہ تو اپنی مہربانی سے میری نذر قبول فرما۔ تو میری عرض کو سنتا اور میری نیت و اخلاص کو جانتا ہے۔ گویا لطیف طرز میں استدعا ہوئی کہ لڑکا پیدا ہو کیونکہ لڑکیاں اس خدمت کے لئے قبول نہیں کی جاتی تھیں۔
Top