Tafseer-e-Usmani - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مومن مرد کے لیے وَّلَا مُؤْمِنَةٍ : اور نہ کسی مومن عورت کے لیے اِذَا : جب قَضَى : فیصلہ کردیں اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَمْرًا : کسی کام کا اَنْ يَّكُوْنَ : کہ (باقی) ہو لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : کوئی اختیار مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ : ان کے کام میں وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ ضَلَّ : تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا ضَلٰلًا : گمراہی مُّبِيْنًا : صریح
اور کام نہیں کسی ایماندار مرد کا اور نہ ایمان دار عورت کا جب کہ مقرر کر دے اللہ اور اس کا رسول کوئی کام کہ ان کو رہے اختیار اپنے کام کا اور جس نے نافرمانی کی اللہ کی اور اس کے رسول کی سو وہ راہ بھولا صریح چوک کر3
3  حضرت زینب ؓ امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی نبی کریم ﷺ کی پھوپھی زاد بہن اور قریش کے اعلیٰ خاندان سے تھیں آنحضرت ﷺ نے چاہا کہ ان کا نکاح زید بن حارثہ سے کردیں۔ یہ زید اصل سے شریف عرب تھے۔ لیکن لڑکپن میں کوئی ظالم ان کو پکڑ لایا اور غلام بنا کر مکہ کے بازار میں بیچ گیا۔ حضرت خدیجہ ؓ نے خرید لیا اور کچھ دنوں بعد آنحضرت ﷺ کو ہبہ کردیا۔ جب یہ ہشیار ہوئے تو ایک تجارتی سفر کی تقریب سے اپنے وطن کے قریب سے گزرے، وہاں ان کے اعزہ کو پتہ لگ گیا۔ آخر ان کے والد، چچا اور بھائی حضرت کی خدمت میں پہنچے کہ آپ ﷺ معاوضہ لے کر ہمارے حوالہ کردیں، فرمایا کہ معاوضہ کی ضرورت نہیں، اگر تمہارے ساتھ جانا چاہے خوشی سے لے جاؤ۔ انہوں نے حضرت زید سے دریافت کیا۔ حضرت زید نے کہا کہ میں حضرت کے پاس سے جانا نہیں چاہتا۔ آپ ﷺ مجھے اولاد سے بڑھ کر عزیز رکھتے ہیں اور ماں باپ سے زیادہ چاہتے ہیں۔ حضرت نے ان کو آزاد کردیا اور متبنیٰ بنا لیا۔ چناچہ لوگ اس زمانہ کے رواج کے مطابق " زید بن محمد " کہہ کر پکارنے لگے تاآنکہ آیت (اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ) 33 ۔ الاحزاب :5) نازل ہوئی۔ اس وقت ' زید بن محمد " کی جگہ پھر " زید بن حارثہ " رہ گئے چونکہ قرآن کے حکم کے موافق ان کے نام سے اس نسبت عظیمہ کا شرف جدا کرلیا گیا تھا شاید اس کی تلافی کے لیے تمام صحابہ کے مجمع میں سے صرف ان کو یہ خاص شرف بخشا گیا کہ ان کا نام قرآن میں تصریحا وارد ہوا جیسا کہ آگے آتا ہے۔ " فلما قضی زید منہا وطرا۔ " بہرحال حضرت زینب کی خاندانی حیثیت چونکہ بہت بلند تھی اور زید بن حارثہ بظاہر داغ غلامی اٹھا کر آزاد ہوئے تھے اس لیے ان کی نیز ان کے بھائی کی مرضی زید سے نکاح کرنے کی نہ تھی لیکن اللہ و رسول کو منظور تھا کہ اس طرح کی موہوم تفریقات و امتیازات نکاح کے راستہ میں حائل نہ ہوا کریں۔ اس لیے آپ ﷺ نے زینب اور ان کے بھائی پر زور دیا کہ وہ اس نکاح کو قبول کرلیں۔ اسی وقت یہ آیت اتری اور ان لوگوں نے اپنی مرضی کو اللہ و رسول ﷺ کی مرضی پر قربان کردیا اور زینب کا نکاح زید بن حارثہ سے ہوگیا۔
Top