Tafseer-e-Usmani - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں رسول پر اے ایمان والو رحمت بھیجو اس پر اور سلام بھیجو سلام کہہ کر5
5  صلوٰۃ النبی کا مطلب ہے " نبی کی ثناء و تعظیم رحمت و عطوفت کے ساتھ " پھر جس کی طرف " صلوٰۃ " منسوب ہوگی اسی کی شان و مرتبہ کے لائق ثناء و تعظیم اور رحمت و عطوفت مراد لیں گے، جیسے کہتے ہیں کہ باپ بیٹے پر، بیٹا باپ پر اور بھائی بھائی پر مہربان ہے یا ہر ایک دوسرے سے محبت کرتا ہے تو ظاہر ہے جس طرح کی محبت اور مہربانی باپ کے بیٹے پر ہے اس نوعیت کی بیٹے کی باپ پر نہیں اور بھائی کی بھائی پر ان دونوں سے جداگانہ ہوتی ہے۔ ایسے ہی یہاں سمجھ لو۔ اللہ بھی نبی کریم ﷺ پر صلوٰۃ بھیجتا ہے یعنی رحمت و شفقت کے ساتھ آپ ﷺ کی ثناء اور عزاز و اکرام کرتا ہے اور فرشتے بھی بھیجتے ہیں، مگر ہر ایک کی صلوٰۃ اور رحمت و تکریم اپنی شان و مرتبہ کے موافق ہوگی۔ آگے مومنین کو حکم ہے کہ تم بھی صلوٰۃ و رحمت بھیجو۔ اس کی حیثیت ان دونوں سے علیحدہ ہونی چاہیے۔ علماء نے کہا کہ اللہ کی صلوٰۃ رحمت بھیجنا اور فرشتوں کی صلوٰۃ استغفار کرنا اور مومنین کی صلوٰۃ دعا کرنا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب آیت نازل ہوئی صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! " سلام " کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہوچکا (یعنی نماز کے تشہد میں جو پڑھا جاتا ہے) " السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ " " صلوٰۃ " کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیجئے جو نماز میں پڑھا کریں۔ آپ ﷺ نے یہ درود شریف تلقین کیا۔ " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔ " غرض یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے مومنین کو حکم دیا کہ تم بھی نبی پر صلوٰۃ (رحمت) بھیجو۔ نبی نے بتلا دیا کہ تمہارا بھیجنا یہ ہی ہے کہ اللہ سے درخواست کرو کہ وہ اپنی بیش از بیش ابدالآباد تک نبی پر نازل فرماتا رہے۔ کیونکہ اس کی رحمتوں کی کوئی حد و نہایت نہیں۔ یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس درخواست پر جو مزید رحمتیں نازل فرمائے وہ ہم عاجز و ناچیز بندوں کی طرف منسوب کردی جائیں۔ گویا ہم نے بھیجی ہیں۔ حالانکہ ہر حال میں رحمت بھیجنے والا وہ ہی اکیلا ہے کسی بندہ کی کیا طاقت تھی کہ سیدالانبیاء کی بارگاہ میں ان کے رتبہ کے لائق تحفہ پیش کرسکتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " اللہ سے رحمت مانگنی اپنے پیغمبر پر اور ان کے ساتھ ان کے گھرانے پر بڑی قبولیت رکھتی ہے۔ ان پر ان کے لائق رحمت اترتی ہے، اور ایک دفعہ مانگنے سے دس رحمتیں اترتی ہیں مانگنے والے پر۔ اب جس کا جتنا جی چاہے اتنا حاصل کرلے۔ " (تنبیہ) صلوٰۃ علی النبی کے متعلق مزید تفصیلات ان مختصر فوائد میں نہیں سما سکتیں۔ شروع حدیث میں مطالعہ کی جائیں۔ اور اس باب میں شیخ شمس الدین سخاوی کا رسالہ " القول ابدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیع " قابل دید ہے۔ ہم نے شرح صحیح مسلم میں بقدر کفالت لکھ دیا ہے فالحمد للہ علی ذلک۔
Top