Tafseer-e-Usmani - Az-Zumar : 49
فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا١٘ ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا١ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ١ؕ بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب مَسَّ : پہنچتی ہے الْاِنْسَانَ : انسان ضُرٌّ دَعَانَا ۡ : کوئی تکلیف وہ ہمیں پکارتا ہے ثُمَّ اِذَا : پھر جب خَوَّلْنٰهُ : ہم عطا کرتے ہیں اس کو نِعْمَةً : کوئی نعمت مِّنَّا ۙ : اپنی طرف سے قَالَ : وہ کہتا ہے اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دی گئی ہے عَلٰي : پر عِلْمٍ ۭ : علم بَلْ هِىَ : بلکہ یہ فِتْنَةٌ : ایک آزمائش وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں
سو جب آلگتی ہے آدمی کو کچھ تکلیف ہم کو پکارنے لگتا ہے4 پھر جب ہم بخشیں اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت کہتا ہے یہ تو مجھ کو ملی کہ پہلے سے معلوم تھی5 کوئی نہیں یہ جانچ ہے پر وہ بہت سے لوگ نہیں سمجھتے6 
4  یعنی جس کے ذکر سے چڑتا تھا مصیبت کے وقت اسی کو پکارتا ہے اور جن کے ذکر سے خوش ہوتا تھا انہیں بھول جاتا ہے۔ 5  یعنی قیاس یہ ہی چاہتا تھا کہ یہ نعمت مجھ کو ملے۔ کیونکہ مجھ میں اس کی لیاقت تھی اور اس کی کمائی کے ذرائع کا علم رکھتا تھا اور خدا کو میری استعداد و اہلیت معلوم تھی، پھر مجھے کیوں نہ ملتی۔ غرض اپنی لیاقت اور عقل پر نظر ی، اللہ کے فضل وقدرت پر خیال نہ کیا۔ 6 یعنی ایسا نہیں بلکہ یہ نعمت خدا کی طرف سے ایک امتحان ہے کہ بندہ اسے لے کر کہاں تک منعم حقیقی کو پہچانتا اور اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ اگر ناشکری کی گئی تو یہ ہی نعمت نقمت بن کر وبال جان ہوجائے گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ " یہ جانچ ہے کہ عقل اس کی دوڑنے لگتی ہے تاکہ اپنی عقل پر بہکے۔ وہ ہی عقل رہتی ہے اور آفت آپہنچتی ہے۔ " پھر کسی کے ٹالے نہیں ٹلتی۔
Top