Tafseer-e-Usmani - Az-Zumar : 4
لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
لَوْ : اگر اَرَادَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ اَنْ يَّتَّخِذَ : کہ بنائے وَلَدًا : اولاد لَّاصْطَفٰى : البتہ وہ چن لیتا مِمَّا : اس سے جو يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ ۙ : وہ پیدا کرتا ہے (مخلوق) جسے وہ چاہتا ہے سُبْحٰنَهٗ ۭ : وہ پاک ہے هُوَ اللّٰهُ : وہی اللہ الْوَاحِدُ : واحد (یکتا) الْقَهَّارُ : زبردست
اگر اللہ چاہتا کہ اولاد کرلے تو چن لیتا اپنی خلق میں سے جو کچھ چاہتا وہ پاک ہے6  وہی ہے اللہ اکیلا دباؤ والاف 7
6 یہاں سے ان کا رد ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں جیسا کہ نصاریٰ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور ساتھ ہی تین خداؤں میں کا ایک خدا مانتے ہیں۔ یا عرب کے بعض قبائل فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر بفرض محال اللہ یہ ارادہ کرتا کہ اس کی کوئی اولاد ہو تو ظاہر ہے وہ اپنی مخلوق ہی میں سے کسی کو اس کام کے لیے چنتا۔ کیونکہ دلائل سے ثابت ہوچکا کہ ایک خدا کے سوا جو کوئی چیز ہے سب اسی کی مخلوق ہے۔ اب ظاہر ہے کہ مخلوق اور خالق میں کسی درجہ میں بھی نوعی یا جنسی اشتراک نہیں۔ پھر ایک دوسرے کا باپ یا بیٹا کیسے بن سکتا ہے۔ اور جب مخلوق و خالق میں یہ رشتہ محال ہے تو اللہ کی طرف سے ایسا ارادہ کرنا بھی محال ہوگا۔ علاوہ بریں فرض کیجیے یہ چیز محال نہ ہوتی تب بھی فرشتوں کو بیٹیاں بنانا تو کسی طرح سمجھ میں نہیں آسکتا تھا۔ جب مخلوق میں سے انتخاب کی ٹھہرتی تو اس کا کیا مطلب کہ خدا اپنے لیے گھٹیا چیز انتخاب کرتا اور بڑہیا اولاد چن چن کر تمہیں دے دیتا۔ 7  یعنی ہر چیز اس کے سامنے دبی ہوئی ہے اس پر کسی کا دباؤ نہیں۔ نہ کسی چیز کی اسے حاجت، پھر اولاد بنانا آخر کس غرض سے ہوگا۔
Top