Tafseer-e-Usmani - An-Nisaa : 60
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖ١ؕ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَزْعُمُوْنَ : دعویٰ کرتے ہیں اَنَّھُمْ : کہ وہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے بِمَآ اُنْزِلَ : اس پر جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف وَمَآ اُنْزِلَ : اور جو نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَحَاكَمُوْٓا : مقدمہ لے جائیں اِلَى : طرف (پاس) الطَّاغُوْتِ : طاغوت (سرکش) وَقَدْ اُمِرُوْٓا : حالانکہ انہیں حکم ہوچکا اَنْ : کہ يَّكْفُرُوْا : وہ نہ مانیں بِهٖ : اس کو وَيُرِيْدُ : اور چاہتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَنْ : کہ يُّضِلَّھُمْ : انہیں بہکادے ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
کیا تو نے نہ دیکھا ان کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ایمان لائے ہیں اس پر جو اترا تیری طرف اور جو اترا تجھ سے پہلے چاہتے ہیں کہ قضیہ لے جائیں شیطان کی طرف اور حکم ہوچکا ہے ان کو کہ اس کو نہ مانیں اور چاہتا ہے شیطان کہ ان کو بہکا کر دور جا ڈالے7
7  یہود فصل خصومات میں رعایت و رشوت کے عادی تھے اس لئے جو لوگ جھوٹے اور منافق اور خائن ہوتے وہ اپنا معاملہ یہودیوں کے عالموں کے پاس لے جانا پسند کرتے کہ وہ خاطر کریں گے اور آپ کے پاس ایسے لوگ اپنا معاملہ لانا پسند نہ کرتے کہ آپ حق کی رعایت کریں گے اور کسی کی اصلاً رعایت نہ کریں گے۔ سو مدینے میں ایک یہودی اور ایک منافق کہ ظاہر میں مسلمان تھا کسی امر میں دونوں جھگڑ پڑے۔ یہودی جو سچا تھا اس نے کہا کہ چل محمد ﷺ کے پاس اور منافق جو جھوٹا تھا اس نے کہا کہ چل کعب بن اشرف، کے پاس جو یہودیوں میں عالم اور سردار تھا۔ آخر وہ دونوں آپ ﷺ کی خدمت میں جھگڑا لیکر آئے تو آپ ﷺ نے یہودی کا حق ثابت فرمایا۔ منافق جو باہر نکلا تو کہنے لگا کہ اچھا حضرت عمر ؓ کے پاس چلو جو وہ فیصلہ کردیں وہی منظور اور رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا۔ غالباً یہ سمجھا ہوگا کہ میں مدعی اسلام ہوں اس لئے یہودی کے مقابلہ میں میری رعایت کریں گے اور حضرت عمر ؓ آپ کے حکم سے مدینہ میں جھگڑے فیصل کیا کرتے تھے چناچہ وہ دونوں حضرت عمر ؓ کے پاس آئے جب حضرت عمر ؓ نے یہ جھگڑا سنا اور یہودی کے بیان سے ان کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ قضیہ آپ کی خدمت میں جا چکا ہے اور آپ اس معاملہ میں یہودی کو سچا اور غالب کرچکے ہیں تو حضرت عمر ؓ نے اس منافق کو قتل کردیا اور فرمایا کہ جو کوئی ایسے قاضی کے فیصلہ کو نہ مانے اسکا فیصلہ یہی ہے۔ اس کے وارث حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں آئے اور حضرت عمر ؓ پر قتل کا دعویٰ کیا اور قسمیں کھانے لگے کہ حضرت عمر ؓ کے پاس تو صرف اس وجہ سے گئے تھے کہ شایدوہ اس معاملہ میں باہم صلح کرادیں یہ وجہ نہ تھی کہ حضرت محمد ﷺ کے فیصلہ سے انکار تھا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ ان آیات میں اصل حقیقت ظاہر فرما دی گئی اور حضرت عمر ؓ کا لقب فاروق فرمایا۔
Top