Tafseer-e-Usmani - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
پھر تم کو کیا ہوا کہ منافقوں کے معاملہ میں دو فریق ہو رہے ہو اور اللہ نے ان کو الٹ دیا بسبب ان کے اعمال کے کیا تم چاہتے ہو کہ راہ پر لاؤ جس کو گمراہ کیا اللہ نے اور جس کو گمراہ کرے اللہ ہرگز نہ پاویگا تو اس کے لئے کوئی راہ2
2  ان منافقوں میں وہ لوگ داخل ہیں جو ظاہر میں بھی ایمان نہ لائے تھے بلکہ ظاہر و باطن کفر پر قائم تھے لیکن حضرت محمد ﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ ظاہری میل جول اور محبت کا معاملہ رکھتے تھے اور غرض ان کی یہ تھی کہ مسلمانوں کی فوج ہماری قوم پر چڑھائی کرے تو ہمارے جان و مال اس حیلہ سے محفوظ رہیں۔ جب مسلمانوں کو معلوم ہوگیا کہ ان کا آنا جانا اس غرض سے ہے دل کی محبت سے نہیں تو بعض مسلمانوں نے کہا کہ ان شریروں سے ملنا ترک کردینا چاہیے تاکہ ہم سے جدا ہوجائیں اور بعضوں نے کہا ان سے ملے جائیے شاید ایمان لے آئیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہدایت و گمراہی اللہ کے قبضہ میں ہے تم اس کا ہرگز فکر مت کرو اور ان لوگوں سے بالاتفاق وہ معاملہ کرنا چاہیے جو آئندہ مذکور ہے دو فریق مت بنو۔
Top