Tafseer-e-Usmani - Al-Ghaafir : 85
فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا١ؕ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ١ۚ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۠   ۧ
فَلَمْ يَكُ : تو نہ ہوا يَنْفَعُهُمْ : ان کو نفع دیتا اِيْمَانُهُمْ : ان کا ایمان لَمَّا : جب رَاَوْا : انہوں نے دیکھ لیا بَاْسَنَا ۭ : ہمارا عذاب سُنَّتَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ : وہ جو گزرچکا ہے فِيْ عِبَادِهٖ ۚ : اس کے بندوں میں وَخَسِرَ : اور گھاٹے میں رہے هُنَالِكَ : اس وقت الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
پھر نہ ہوا کہ کام آئے ان کو یقین لانا ان کا جس وقت دیکھ چکے ہمارا عذاب8 رسم پڑی ہوئی اللہ کی جو چلی آئی ہے اس کے بندوں میں اور خراب ہوئے اس جگہ منکر9
8  یعنی اب پچھتانے اور تقصیر کا اعتراف کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ ایمان و توبہ کا وقت گزر چکا۔ عذاب دیکھ لینے پر تو ہر کسی کو بےاختیار یقین آجاتا ہے۔ مگر یہ یقین موجب نجات نہیں۔ نہ اس یقین کی بدولت آیا ہوا عذاب ٹل سکتا ہے۔ قال تعالیٰ " ولیست التوبۃ للذین یعملون السیأات حتی اذا حضر احدہم الموت قال انی تبت الان ولا الذین یموتون وہم کفار " (نسا، رکوع 3) وقال فی قصۃ فرعون " آلئن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین۔ " وفی الحدیث " ان اللہ تعالیٰ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر۔ "9  یعنی ہمیشہ سے یوں ہی ہوتا رہا ہے کہ لوگ اول انکار و استہزاء سے پیش آتے ہیں پھر جب عذاب میں پکڑے جاتے ہیں اس وقت شور مچاتے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ اللہ کی عادت یہ ہے کہ اس بےوقت کی توبہ کو قبول نہیں فرماتا۔ آخر منکرین اپنے جرائم کی پاداش میں خراب و برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اللہم احفظنا من الخسران۔ واحفظنا من غضبک وسخطک فی الدنیا والاخرۃ (تم سورة المومنون وللہ الحمد والمنۃ)
Top