بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Usmani - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
9 ہم نے فیصلہ کردیا تیرے واسطے صریح
9  اس سورت کی مختلف آیات میں متعدد واقعات کی طرف اشارہ ہے۔ بغرض سہولت فہم ان کو مختصراً یہاں لکھ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ (الف) آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں خواب دیکھا کہ ہم مکہ میں امن وامان کے ساتھ داخل ہوئے اور عمرہ کر کے حلق و قصر کیا۔ آپ ﷺ نے یہ خواب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیان فرمایا۔ گو آپ ﷺ نے مدت کی تعیین نہیں فرمائی تھی، مگر شدت اشتیاق سے اکثروں کا خیال اس طرف گیا کہ امسال عمرہ میسر ہوگا اتفاقاً آپ ﷺ کا قصد بھی عمرہ کا ہوگیا۔ (ب) آپ ﷺ تقریباً ڈیڑھ ہزار آدمیوں کو ہمراہ لے کر بغرض عمرہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور " ہدی " بھی آپ کے ساتھ تھی۔ یہ خبر مکہ پہنچی تو قریش نے بہت سا مجمع کر کے اتفاق کرلیا کہ آپ ﷺ کو مکہ میں نہ آنے دیں گے۔ حالانکہ ان کے ہاں حج وعمرہ سے دشمن کو بھی روکا نہیں جاتا تھا۔ بہرحال " حدیبیہ " پہنچ کر جو مکہ سے قریب ہے آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی اور کسی طرح اٹھنے کا نام نہ لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا " حَسْبَہَا حَابِسُ الْفِیْل " اور فرمایا کہ خدا کی قسم اہل مکہ مجھ سے جس بات کا مطالبہ کریں گے جس میں حرمات اللہ کی تعظیم قائم رہے میں منظور کروں گا۔ آخر آپ ﷺ نے وہیں قیام فرمایا (اسی مقام کو آجکل " شمسیہ " کہتے ہیں) (ج) آپ ﷺ نے مکہ والوں کے پاس قاصد بھیجا کہ ہم لڑنے نہیں آئے، ہم کو آنے دو ، عمرہ کر کے چلے جائیں گے جب اس کا کچھ جواب نہ ملا تو آپ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو وہ ہی پیغام دے کر بھیجا اور بعض مسلمان مرد و عورت جو مکہ میں مغلوب و مظلوم تھے ان کو بشارت پہنچائی کہ اب عنقریب مکہ میں اسلام غالب ہوجائے گا۔ حضرت عثمان ؓ کو قریش نے روک لیا۔ ان کی واپسی میں جو دیر لگی یہاں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ حضرت عثمان ؓ قتل کردیے گئے۔ اس وقت آپ ﷺ نے اس خیال سے کہ شاید لڑائی کا موقع ہوجائے سب صحابہ سے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر جہاد کی بیعت لی۔ جب قریش نے بیعت کی خبر سنی تو ڈر گئے اور حضرت عثمان ؓ کو واپس بھیج دیا (د) پھر مکہ کے چند رؤساء بغرض صلح آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صلح نامہ لکھنا قرار پایا۔ اس سلسلہ میں بعض امور پر بحث و تکرار بھی ہوئی اور مسلمانوں کو غصہ اور جوش آیا کہ تلوار سے معاملہ ایک طرف کردیا جائے۔ لیکن آخر حضور ﷺ نے مکہ والوں کے اصرار کے موافق سب باتیں منظور فرما لیں اور مسلمانوں نے بھی بےانتہا ضبط و تحمل سے کام لیا اور صلح نامہ تیار ہوگیا جس میں ایک شرط کفار کی طرف سے یہ تھی کہ آپ اس سال واپس چلے جائیے اور سال آئندہ غیر مسلح آکر عمرہ کر لیجیے۔ اور یہ کہ فریقین میں دس سال تک لڑائی نہ ہوگی۔ اس مدت میں جو ہمارے ہاں سے تمہارے پاس جائے اسے آپ اپنے پاس نہ رکھیں۔ اور جو تمہارا آدمی ہمارے ہاں آئے گا ہم واپس نہ کریں گے۔ صلح کا تمام معاملہ طے ہوجانے پر آپ ﷺ نے " حدیبیہ " میں ہی ہدی کا جانور ذبح کیا اور حلق و قصر کر کے احرام کھول دیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ (ہ) راستہ میں یہ سورت (الفتح) نازل ہوئی۔ اور یہ سب واقعہ اواخر 06 ھ میں پیش آیا (و) حدیبیہ سے واپس تشریف لا کر اوائل 07 ھ میں آپ ﷺ نے " خیبر " فتح کیا جو مدینہ سے شمالی جانب چار منزل پر شام کی سمت یہود کا ایک شہر تھا۔ اس حملہ میں کوئی شخص ان صحابہ کے علاوہ شریک نہ تھا جو " حدیبیہ " میں آپ کے ہمراہ تھے۔ (ز) سال آئندہ یعنی ذیقعدہ 07 ھ میں آپ حسب معاہدہ عمرۃ القضاء کے لیے تشریف لے گئے اور امن وامان کے ساتھ مکہ پہنچ کر عمرہ ادا فرمایا۔ (ح) عہد نامہ میں جو دس سال تک لڑائی بند رکھنے کی شرط تھی قریش نے نقض عہد کیا۔ آپ ﷺ نے مکہ پر چڑھائی کردی اور رمضان 08 ھ میں اس کو فتح کرلیا۔
Top