Tafseer-e-Usmani - Al-Fath : 11
سَیَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَاۤ اَمْوَالُنَا وَ اَهْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا١ۚ یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِهِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا١ؕ بَلْ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
سَيَقُوْلُ : اب کہیں گے لَكَ : آپ سے الْمُخَلَّفُوْنَ : پیچھے رہ جانے والے مِنَ الْاَعْرَابِ : دیہاتیوں میں سے شَغَلَتْنَآ : ہمیں مشغول رکھا اَمْوَالُنَا : ہمارے مالوں وَاَهْلُوْنَا : اور ہمارے گھر والے فَاسْتَغْفِرْ : اور بخشش مانگئے لَنَا ۚ : ہمارے لئے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں بِاَلْسِنَتِهِمْ : اپنی زبانوں سے مَّا لَيْسَ : جو نہیں فِيْ قُلُوْبِهِمْ ۭ : ان کے دلوں میں قُلْ : فرمادیں فَمَنْ : تو کون يَّمْلِكُ : اختیار رکھتا ہے لَكُمْ : تمہارے لئے مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کے سامنے شَيْئًا : کسی چیز کا اِنْ اَرَادَ بِكُمْ : اگر وہ چاہے تمہیں ضَرًّا : کوئی نقصان اَوْ اَرَادَ بِكُمْ : یا چاہے تمہیں نَفْعًا ۭ : کوئی فائدہ بَلْ كَانَ اللّٰهُ : بلکہ ہے اللہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو خَبِيْرًا : خبردار
اب کہیں گے تجھ سے پیچھے رہ جانے والے گنوار ہم کام میں لگے رہ گئے اپنے مالوں کے، اور گھر والوں کے سو ہمارا گناہ بخشواف 2 وہ کہتے ہیں اپنی زبان سے جو ان کے دل میں نہیں3 تو کہہ کس کا کچھ بس چلتا ہے اللہ سے تمہارے واسطے اگر وہ چاہے تمہارا نقصان یا چاہے تمہارا فائدہ بلکہ اللہ ہے تمہارے سب کاموں سے خبردار4
2  مدینہ سے روانہ ہوتے وقت آپ ﷺ نے اپنی روانگی کا اعلان کردیا اور مسلمانوں کو ساتھ چلنے کے لیے ابھارا تھا۔ شاید قرائن سے آپ کو بھی لڑائی کا احتمال ہو۔ اس پر دیہاتی گنوار جن کے دلوں میں ایمان راسخ نہ ہوا تھا، جان چرا کر بیٹھ رہے۔ اور آپس میں کہنے لگے کہ بھلا ہم ایسی قوم کی طرف جائیں گے جو محمد ﷺ کے گھر (مدینہ) میں آکر ان کے کتنے ساتھیوں کو قتل کرگئی۔ اب ہم اس کے گھر جا کر اس سے لڑیں گے ؟ تم دیکھ لینا اب یہ اور ان کے ساتھی اس سفر سے واپس آنے والے نہیں سب وہیں کھیت رہیں گے۔ ان آیات میں حق تعالیٰ نے ان کے نفاق کا پردہ فاش کیا ہے آپ کو مدینہ پہنچنے سے قبل راستہ میں بتلا دیا کہ تمہارے صحیح وسالم واپس جانے پر وہ لوگ اپنی غیر حاضری کے جھوٹے عذر اور حیلے بہانے کرتے ہوئے آئیں گے اور کہیں گے کہ کیا کہیے ہم کو گھر بار کے دھندوں سے فرصت نہ ملی۔ کوئی ہمارے پیچھے مال اور اہل و عیال کی خبر لینے والا نہ تھا بہرحال ہم سے کوتاہی ضرور ہوئی۔ اب اللہ سے ہمارا قصور معاف کرا دیجئے۔ 3 یعنی دل میں جانتے ہیں کہ یہ عذر بالکل غلط ہے اور استغفار کی درخواست کرنا بھی محض ظاہر داری کے لیے ہے، سچے دل سے نہیں وہ دل میں نہ اس کو گناہ سمجھتے ہیں نہ آپ پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ 4 یعنی ہر طرح کا نفع و نقصان اللہ کے قبضہ میں ہے جس کی مشیت و ارادہ کے سامنے کسی کا کچھ بس نہیں چلتا۔ اس کو منظور نہیں تھا کہ تم کو اس سفر مبارک کی شرکت کے فوائد نصیب ہوں۔ نہ اب یہ منظور ہے کہ میں تمہارے لیے استغفار کروں۔ اس نے تمہاری حیلہ تراشی سے قبل ہی ہم کو ان جھوٹے اعذار پر مطلع کردیا تھا۔ بہرحال اس نے ارادہ کرلیا ہے کہ تمہارے اعمال و حرکات کی بدولت " غزوہ حدیبیہ " کی گوناگوں برکات و فوائد کی طرف سے تم کو نقصان اور گھاٹے میں رکھے اور وہاں تم کہتے ہو کہ اپنے مال اور گھر والوں کی حفاظت کی وجہ سے سفر میں نہ جاسکے، تو کیا خدا اگر تمہارے مال و اولاد وغیرہ میں نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے۔ تم گھر میں رہ کر اسے روک دو گے۔ یا فرض کرو اللہ تم کو کچھ فائدہ مال و عیال میں پہنچانا چاہے اور تم سفر میں ہو، تو کیا اسے کوئی روک سکتا ہے۔ جب نفع و نقصان کو کوئی روک نہیں سکتا تو اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے مقابلہ میں ان چیزوں کی پروا کرنا محض حماقت و ضلالت ہے، ان حیلوں بہانوں سے مت سمجھو کہ ہم اللہ کو خوش کرلیں گے بلکہ یاد رکھو اللہ تمہارے سب کھلے چھپے اعمال و احوال کی پوری خبر رکھتا ہے۔
Top