Tafseer-e-Usmani - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
تحقیق اللہ خوش ہوا ایمان والوں سے جب بیعت کرنے لگے تجھ سے اس درخت کے نیچے8 پھر معلوم کیا جو ان کے جی میں تھا9 پھر اتارا ان پر اطمینان اور انعام دیا ان کو ایک فتح نزدیک
8  وہ کیکر کا درخت تھا حدیبیہ میں۔ غالباً " لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ " الخ فرمانے کی وجہ ہی سے اس بیعت کو " بیعت الرضوان " کہتے ہیں۔ شروع سورت میں اس کا مفصل قصہ گزر چکا۔ 9  یعنی ظاہر کا اندیشہ اور دل کا توکل، حسن نیت، صدق و اخلاص اور جب اسلام وغیرہ۔ (تنبیہ) عموماً مفسرین نے " مافی قلوبہم " سے یہ ہی مراد لیا ہے مگر ابو حیان کہتے ہیں کہ صلح اور شرائط صلح کی طرف سے دلوں میں جو رنج و غم اور اضطراب تھا وہ مراد ہے اور آگے " فانزل السکینۃ علیہم " اس پر زیادہ چسپاں ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top