Tafseer-e-Usmani - Al-Fath : 26
اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
اِذْ جَعَلَ : جب کی الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ قُلُوْبِهِمُ : اپنے دلوں میں الْحَمِيَّةَ : ضد حَمِيَّةَ : ضد الْجَاهِلِيَّةِ : زمانۂ جاہلیت فَاَنْزَلَ اللّٰهُ : تو اللہ نے اتاری سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسلی عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول پر وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومنوں پر وَاَلْزَمَهُمْ : اور ان پر لازم فرمادیا كَلِمَةَ : بات التَّقْوٰى : تقوی کی وَكَانُوْٓا : اور وہ تھے اَحَقَّ بِهَا : زیادہ حقدار اس کے وَاَهْلَهَا ۭ : اور اس کے اہل وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمًا : جاننے والا
جب رکھی منکروں نے اپنے دلوں میں کدنادانی کی ضد پھر اتارا اللہ نے اپنی طرف کا اطمینان اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر2 اور قائم رکھا ان کو ادب کی بات پر اور وہی تھے اس کے لائق اور اس کام کے اور ہے اللہ ہر چیز سے خبردار3
2 نادانی کی ضد یہ ہی کہ امسال عمرہ نہ کرنے دیا اور یہ کہ جو مسلمان مکہ سے ہجرت کر جائے اسے پھر واپس بھیج دو ۔ اگلے دو سال عمرہ کو آؤ تو تین دن سے زیادہ مکہ میں نہ ٹھہرو۔ اور ہتھیار کھلے نہ لاؤ صلح نامہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نہ لکھو اور بجائے محمد رسول اللہ کے صرف محمد ﷺ بن عبد اللہ تحریر کرو۔ حضرت نے یہ سب باتیں قبول کیں اور مسلمانوں نے سخت انقباض و اضطراب کے باوجود پیغمبر کے ارشاد کے آگے سر تسلیم جھکا دیا اور بالآخر اسی فیصلہ پر ان کے قلوب مطمئن ہوگئے۔ 3  یعنی اللہ سے ڈر کر نافرمانی کی راہ سے بچے اور کعبہ کے ادب پر مضبوطی سے قائم رہے۔ اور کیوں نہ رہتے۔ وہ دنیا میں خدائے واحد کے سچے پرستار اور کلمہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُول اللہ کے زبردست حامل تھے۔ ایک پکا موحد اور پیغمبر کا مطیع و وفادار ہی اپنے جذبات و رجحانات کو عین جوش و خروش کے وقت اللہ کی خوشنودی اور اس کے شعائر کی تعظیم پر قربان کرسکتا ہے۔ حقیقی توحید یہ ہی ہے کہ آدمی اس اکیلے مالک کا حکم سن کر اپنی ذلت و عزت کے سب خیالات بالائے طاق رکھ دے۔ شاید اسی لیے حدیث میں " کلمۃ التقویٰ " کی تفسیر لا الہ الا اللہ سے کی گئی ہے۔ کیونکہ تمام تر تقویٰ و طہارت کی بنیاد یہ ہی کلمہ ہے۔ جس کے اٹھانے اور حق ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اصحاب رسول ﷺ کو چن لیا تھا۔ اور بلاشبہ اللہ کے علم میں وہ ہی اس کے مستحق اور اہل تھے۔
Top