Tafseer-e-Usmani - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
تاکہ معاف کرے تجھ کو اللہ جو آگے ہوچکے تیرے گناہ اور جو پیچھے رہے10 اور پورا کر دے تجھ پر اپنا احسان11 اور چلائے تجھ کو سیدھی راہ12
10  " حدیبیہ " کی صلح بظاہر ذلت و مغلوبیت کی صلح نظر آتی ہے اور شرائط صلح پڑھ کر بادی النظر میں یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ تمام جھگڑوں کا فیصلہ کفار قریش کے حق میں ہوا۔ چناچہ حضرت عمر ؓ اور دوسرے صحابہ ؓ بھی صلح کی ظاہری سطح دیکھ کر سخت محزون و مضطرب تھے۔ وہ خیال کرتے تھے کہ اسلام کے چودہ پندرہ سو سرفروش سپاہیوں کے سامنے قریش اور ان کے طرفداروں کی جمعیت کیا چیز ہے۔ کیوں تمام نزاعات کا فیصلہ تلوار سے نہیں کردیا جاتا۔ مگر رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں ان احوال و نتائج کو دیکھ رہی تھیں جو دوسروں کی نگاہوں سے اوجھل تھے اور اللہ نے آپ ﷺ کا سینہ سخت سے سخت ناخوشگوار واقعات پر تحمل کرنے کے لیے کھول دیا تھا۔ آپ ﷺ بیمثال استغناء اور توکل و تحمل کے ساتھ ان کی ہر شرط قبول فرماتے رہے اور اپنے اصحاب کو " اللّٰہَ وَرَسُولَہ اعْلَمُ " کہہ کر تسلی دیتے رہے۔ یعنی اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ تاآنکہ یہ سورت نازل ہوئی اور خداوند قدوس نے اس صلح اور فیصلہ کا نام " فتح مبین " رکھا لوگ اس پر بھی تعجب کرتے تھے کہ یا رسول اللہ کیا یہ فتح ہے فرمایا ہاں بہت بڑی فتح۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کی بیعت جہاد اور معمولی چھیڑ چھاڑ کے بعد کفار معاندین کا مرعوب ہو کر صلح کی طرف جھکنا اور نبی کریم ﷺ کا باوجود جنگ اور انتقام پر کافی قدرت رکھنے کے ہر موقع پر اغماض اور عفو و درگزر سے کام لینا اور محض تعظیم بیت اللہ کی خاطر ان کے بیہودہ مطالبات پر قطعاً برافروختہ نہ ہونا۔ یہ واقعات ایک طرف اللہ کی خصوصی مدد و رحمت کے استجلاب کا ذریعہ بنتے تھے اور دوسری جانب دشمنوں کے قلوب پر اسلام کی اخلاقی و روحانی طاقت اور پیغمبر ﷺ کی شان پیغمبری کا سکہ بٹھلا رہے تھے۔ گو عہد نامہ لکھتے وقت ظاہر بینوں کو کفار کی جیت نظر آتی تھی۔ لیکن ٹھنڈے دل سے فرصت میں بیٹھ کر غور کرنے والے خوب سمجھتے تھے کہ فی الحقیقت تمام تر فیصلہ حضور ﷺ کے حق میں ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام " فتح مبین " رکھ کر متنبہ کردیا کہ یہ صلح اس وقت بھی فتح ہے اور آئندہ کے لیے بھی آپ کے حق میں بیشمار فتوحات ظاہری و باطنی کا دروازہ کھولتی ہے۔ اس صلح کے بعد کافروں اور مسلمانوں کو باہم اختلاط اور بےتکلف ملنے جلنے کا موقع ہاتھ آیا۔ کفار، مسلمانوں کی زبان سے اسلام کی باتیں سنتے اور ان مقدس مسلمانوں کے احوال واطوار کو دیکھتے تو خود بخود ایک کشش اسلام کی طرف ہوتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صلح " حدیبیہ " سے فتح مکہ تک یعنی تقریباً دو سال کی مدت میں اتنی کثرت سے لوگ مشرف با اسلام ہوئے کہ کبھی اس قدر نہ ہوئے تھے۔ خالد بن ولید اور عمرو بن العاص جیسے نامور صحابہ اسی دوران میں اسلام کے حلقہ بگوش بنے۔ یہ جسموں کو نہیں، دلوں کو فتح کرلینا اسی صلح حدیبیہ کی اعظم ترین برکت تھی۔ اب جماعت اسلام چاروں طرف اس قدر پھیل گئی اور اتنی بڑھ گئی تھی کہ مکہ معظمہ کو فتح کر کے ہمیشہ کے لیے شرک کی گندگی سے پاک کردینا بالکل سہل ہوگیا۔ " حدیبیہ " میں حضور ﷺ کے ہمراہ صرف ڈیڑھ ہزار جانباز تھے لیکن دو برس کے بعد مکہ معظمہ کی فتح عظیم کے وقت دس ہزار لشکر جرار آپ کے ہمرکاب تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ صرف فتح مکہ اور فتح خیبر، بلکہ آئندہ کی کل فتوحات اسلامیہ کے لیے صلح حدیبیہ بطور اساس و بنیاد اور زرین دیباچہ کے تھی۔ اور اس تحمل و توکل اور تعظیم حرمات اللہ کی بدولت جو صلح کے سلسلہ میں ظاہر ہوئی، جن علوم و معارف قدسیہ اور باطنی مقامات و مراتب کا فتح باب ہوا ہوگا اس کا اندازہ تو کون کرسکتا ہے، ہاں تھوڑا سا اجمالی اشارہ حق تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا ہے یعنی جیسے سلاطین دنیا کسی بہت بڑے فاتح جنرل کو خصوصی اعزازو اکرام سے نوازتے ہیں، خداوند قدوس نے اس فتح مبین کے صلہ میں آپ کو چار چیزوں سے سرفراز فرمایا۔ جن میں پہلی چیز غفران ذنوب ہے (ہمیشہ سے ہمیشہ تک کی سب کو تاہیاں جو آپ کے مرتبہ رفیع کے اعتبار سے کوتاہی سمجھی جائیں بالکلیہ معاف ہیں) یہ بات اللہ تعالیٰ نے اور کسی بندہ کے لیے نہیں فرمائی مگر حدیث میں آیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور ﷺ اس قدر عبادت اور محنت کرتے تھے کہ راتوں کو کھڑے کھڑے پاؤں سوج جاتے تھے۔ اور لوگوں کو دیکھ کر رحم آتا تھا۔ صحابہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ ! آپ اس قدر محنت کیوں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما چکا۔ فرماتے۔ " اَفَلاَاکُونُ عَبْدًا شَکُورًا۔ " (تو کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں) ظاہر ہے۔ اللہ بھی ایسی بشارت اسی بندہ کو سنائیں گے جو سن کر نڈر نہ ہوجائے بلکہ اور زیادہ خدا تعالیٰ سے ڈرنے لگے۔ شفاعت کی طویل حدیث میں ہے کہ جب مخلوق جمع ہو کر حضرت مسیح (علیہ السلام) کے پاس جائے گی تو وہ فرمائیں گے کہ محمد ﷺ کے پاس جاؤ جو خاتم النبیین ہیں اور جن کی اگلی پچھلی سب خطائیں اللہ تعالیٰ معاف کرچکا ہے (یعنی اس مقام شفاعت میں اگر بالفرض کوئی تقصیر بھی ہوجائے تو وہ بھی عفو عام کے تحت میں پہلے ہی آچکی ہے (بجز ان کے اور کسی کا یہ کام نہیں) ۔ 11  یعنی صرف تقصیرات سے درگزر نہیں بلکہ جو کچھ ظاہری و باطنی اور مادی و روحی انعام و احسان اب تک ہوچکے ہیں ان کی پوری تکمیل و تمیم کی جائے گی۔ 12 یعنی تجھ کو ہدایت و استقامت کی سیدھی راہ پر ہمیشہ قائم رکھے گا۔ معرفت و شہود کے غیر محدود و مراتب پر فائز ہونے اور ابدان و قلوب پر اسلام کی حکومت قائم کرنے کی راہ میں تیرے لیے کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو سکے گی۔ لوگ جوق درجوق تیری ہدایت سے اسلام کے سیدھے راستہ پر آئیں گے۔ اور اس طرح تیرے اجورو حسنات کے ذخیرہ میں بیشمار اضافہ ہوگا۔
Top