Tafseer-e-Usmani - Al-Hujuraat : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ١ۚ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ١ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا يَسْخَرْ : نہ مذاق اڑائے قَوْمٌ : ایک گروہ مِّنْ قَوْمٍ : (دوسرے) گروہ کا عَسٰٓى : کیا عجب اَنْ يَّكُوْنُوْا : کہ وہ ہوں خَيْرًا مِّنْهُمْ : بہتر ان سے وَلَا نِسَآءٌ : اور نہ عورتیں مِّنْ نِّسَآءٍ : عورتوں سے ، کا عَسٰٓى : کیا عجب اَنْ يَّكُنَّ : کہ وہ ہوں خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ : بہتر ان سے وَلَا تَلْمِزُوْٓا : اور نہ عیب لگاؤ اَنْفُسَكُمْ : باہم (ایکدوسرے) وَلَا تَنَابَزُوْا : اور باہم نہ چڑاؤ بِالْاَلْقَابِ ۭ : بُرے القاب سے بِئْسَ الِاسْمُ : بُرا نام الْفُسُوْقُ : گناہ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ : ایمان کے بعد وَمَنْ : اور جو ، جس لَّمْ يَتُبْ : توبہ نہ کی (باز نہ آیا) فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ : وہ ظالم (جمع)
اے ایمان والو ٹھٹھا نہ کریں ایک لوگ دوسروں سے شاید وہ بہتر ہوں ان سے اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے شاید وہ بہتر ہوں ان سے اور عیب نہ لگاؤ ایک دوسرے کو اور نام نہ ڈالو چڑانے کو ایک دوسرے کے2 برا نام ہے گنہگاری پیچھے ایمان کے3 اور جو کوئی توبہ نہ کرے تو وہی ہیں بےانصاف4
2 اول مسلمانوں میں نزاع و اختلاف کو روکنے کی تدابیر بتلائی تھیں۔ پھر بتلایا کہ اگر اتفاقاً اختلاف رونما ہوجائے تو پر زور اور موثر طریقہ سے اس کو مٹایا جائے لیکن جب تک نزاع کا خاتمہ نہ ہو کوشش ہونی چاہیے کہ کم ازکم جذبات منافرت و مخالفت زیادہ تیز اور مشتعل نہ ہونے پائیں۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ جہاں دو شخصوں یا دو جماعتوں میں اختلاف رونما ہوا۔ بس ایک دوسرے کا تمسخر اور استہزاء کرنے لگتا ہے۔ ذرا سی بات ہاتھ لگ گئی اور ہنسی مذاق اڑانا شروع کردیا۔ حالانکہ اسے معلوم نہیں کہ شاید جس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو بلکہ بسا اوقات یہ خود بھی اختلاف سے پہلے اس کو بہتر سمجھتا ہوتا ہے۔ مگر ضدو نفسانیت میں دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آتا ہے اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ اس طریقہ سے نفرت و عداوت کی خلیج روز بروز وسیع ہوتی رہتی ہے۔ اور قلوب میں اس قدر بعد ہوجاتا ہے کہ صلح و ائتلاف کی کوئی امید باقی نہیں رہتی آیہ ہذا میں خداوند قدوس نے اسی قسم کی باتوں سے منع فرمایا ہے۔ یعنی ایک جماعت دوسری جماعت کے ساتھ نہ مسخراپن کرے نہ ایک دوسرے پر آوازیں کسی جائیں نہ کھوج لگا کر عیب نکالے جائیں اور نہ برے ناموں اور برے القاب سے فریق مقابل کو یاد کیا جائے، کیونکہ ان باتوں سے دشمنی اور نفرت میں ترقی ہوتی ہے اور فتنہ و فساد کی آگ زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ سبحان اللہ ! کیسی بیش بہا ہدایات ہیں۔ آج اگر مسلمان سمجھیں تو ان کے سب سے بڑے مرض کا مکمل علاج اسی ایک سورة حجرات میں موجود ہے۔ 3  یعنی کسی کا برا نام ڈالنے سے آدمی خود گنہگار ہوتا ہے۔ اسے تو واقع میں عیب لگایا نہ لگا لیکن اس کا نام بدتہذیب، فاسق، گنہگار اور مردم آزار پڑگیا۔ خیال کرو۔ " مومن " کے بہترین لقب کے بعد یہ نام کیا اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ جب ایک شخص ایمان لا چکا اور مسلمان ہوگیا اس کو مسلمانی سے پہلے کی باتوں پر طعن دینا یا اس وقت کے بدترین القاب سے یاد کرنا مثلاً یہودی یا نصرانی وغیرہ کہہ کر پکارنا نہایت مذموم حرکت ہے۔ اسی طرح جو شخص کسی عیب میں مبتلا ہو اور وہ اس کا اختیاری نہ ہو، یا ایک گناہ سے فرض کیجیے توبہ کرچکا ہے، چڑانے کے لیے اس کا ذکر کرنا بھی جائز نہیں۔ 4 یعنی جو پہلے ہوچکا اب توبہ کرلو۔ اگر یہ احکام و ہدایات سننے کے بعد بھی ان جرائم سے توبہ نہ کی تو اللہ کے نزدیک اصلی ظالم یہ ہی ہوں گے۔
Top