Tafseer-e-Usmani - Al-Hujuraat : 5
وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ صَبَرُوْا : صبر کرتے حَتّٰى : یہاں تک کہ تَخْرُجَ : آپ نکل آتے اِلَيْهِمْ : ان کے پاس لَكَانَ : البتہ ہوگا خَيْرًا : بہتر لَّهُمْ ۭ : ان کے لئے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور اگر وہ صبر کرتے جب تک تو نکلتا ان کی طرف تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے1
1  بنی تمیم ملنے کو آئے، حضور ﷺ حجرہ مبارک میں تشریف رکھتے تھے، وہ لوگ باہر سے آوازیں دینے لگے کہ " یا محمد اخرج الینا " (اے محمد ﷺ باہر آئیے) یہ بےعقلی اور بےتہذیبی کی بات تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے مرتبہ کو نہیں سمجھتے تھے۔ کیا معلوم ہے اس وقت آپ ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ یا کسی اور اہم کام میں مشغول ہوں۔ آپ ﷺ کی ذات منبع البرکات تو مسلمانوں کے تمام دینی و دنیاوی امور کا مرکز و ملجاء تھی۔ کسی معمولی ذمہ دار آدمی کے لیے بھی کام کرنا سخت مشکل ہوجائے اگر اس کا کوئی نظام الاوقات نہ ہو۔ اور آخر پیغمبر کا ادب و احترام بھی کوئی چیز ہے چاہیے تھا کہ کسی کی زبانی اندر اطلاع کراتے اور آپ ﷺ کے باہر تشریف لانے تک صبر کرتے۔ جب آپ ﷺ باہر تشریف لا کر ان کی طرف متوجہ ہوتے اس وقت خطاب کرنا چاہیے تھا۔ ایسا کیا جاتا تو ان کے حق میں بہتر اور قابل ستائش ہوتا۔ تاہم بےعقلی اور نادانستگی سے جو بات اتفاقاً سرزد ہوجائے اللہ اس کو اپنی مہربانی سے بخشنے والا ہے۔ چاہیے کہ اپنی تقصیر پر نادم ہو کر آئندہ ایسا رویہ اختیار نہ کریں۔ حضور ﷺ کی تعظیم و محبت ہی وہ نقطہ ہے جس پر قوم مسلم کی تمام پراگندہ قوتیں اور منتشر جذبات جمع ہوتے ہیں اور یہ ہی وہ ایمانی رشتہ ہے جس پر اسلامی اخوت کا نظام قائم ہے۔
Top