Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 14
وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ١۪ فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : جن لوگوں نے کہا اِنَّا : ہم نَصٰرٰٓى : نصاری اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِيْثَاقَهُمْ : ان کا عہد فَنَسُوْا : پھر وہ بھول گئے حَظًّا : ایک بڑا حصہ مِّمَّا : اس سے جو ذُكِّرُوْا بِهٖ : جس کی نصیحت کی گئی تھی فَاَغْرَيْنَا : تو ہم نے لگا دی بَيْنَهُمُ : ان کے درمیان الْعَدَاوَةَ : عداوت وَالْبَغْضَآءَ : اور بغض اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت وَسَوْفَ : اور جلد يُنَبِّئُهُمُ : انہیں جتا دے گا اللّٰهُ : اللہ بِمَا كَانُوْا : جو وہ يَصْنَعُوْنَ : کرتے تھے
اور وہ جو کہتے ہیں اپنے کو نصاریٰ5 ان سے بھی لیا تھا ہم نے عہد ان کا پھر بھول گئے نفع اٹھانا اس نصیحت سے جو ان کو کی گئی تھی6  پھر ہم نے لگا دی آپس میں ان کے دشمنی اور کینہ7 قیامت کے دن تک8 اور آخر جتاوے گا ان کو اللہ جو کچھ کرتے تھے9
5  " نصاریٰ " کا ماخذ یا تو " نصر " ہے جس کے معنی مدد کرنے کے ہیں اور " ناصرہ " کی طرف نسبت ہے جو ملک شام میں اس بستی کا نام ہے جہاں حضرت مسیح (علیہ السلام) رہے تھے۔ اسی لئے ان کو " مسیح ناصری " کہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے کو " نصاریٰ " کہتے تھے وہ گویا اس بات کے مدعی تھے کہ ہم خدا کے سچے دین اور پیغمبروں کے حامی و ناصر اور حضرت مسیح ناصری کے متبع ہیں اس زبانی دعوے اور لقبی تفاخر کے باوجود دین کے معاملہ میں جو رویہ تھا وہ آگے ذکر کیا گیا ہے۔ 6  یعنی یہود کی طرح ان سے بھی عہد لیا گیا لیکن یہ بھی عہد شکنی اور بےوفائی میں اپنے پیشرو وں سے کچھ کم نہیں رہے۔ انہوں نے بھی ان بیش بہا نصائح سے جن پر نجات و فلاح ابدی کا مدار تھا کوئی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ " بائبل " میں نصیحتوں کا وہ حصہ باقی ہی نہ چھوڑا جو حقیقۃ مذہب کا مغز تھا۔ 7 یعنی باہم " نصاریٰ " میں یا " یہود " اور " نصاریٰ " دونوں میں عداوتیں اور جھگڑے ہمیشہ کے لئے قائم ہوگئے۔ آسمانی سبق کو ضائع کرنے اور بھلا دینے کا جو نتیجہ ہونا چاہیے تھا وہ ہوا۔ یعنی جب وحی الہٰی کی اصلی روشنی ان کے پاس نہ رہی تو اوہام و اہوا کے اندھیریوں میں ایک دوسرے سے الجھنے لگے۔ مذہب تو نہ رہا پر مذہب کے جھگڑے رہ گئے۔ یہ ہی فرقے پیدا ہو کر اندھیرے میں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ یہ ہی فرقہ وار تصادم آخرکار آپس کی شدید ترین عداوت و بغض پر منتہی ہوا۔ کوئی شبہ نہیں کہ آج مسلمانوں میں بھی بیحد تفرق و تشتت اور مذہبی تصادم موجود ہے لیکن چونکہ ہمارے پاس وحی الہٰی اور قانون سماوی بحمد اللہ بلا کم وکاست محفوظ ہے۔ اس لئے اختلافات کی موجودگی میں بھی مسلمانوں کی بہت بڑی جماعت برابر مرکز حق و صداقت پر قائم رہی ہے اور رہے گی۔ اس کے برخلاف " یہود " و " نصاریٰ " کے اختلافات یا مثلاً " پروٹسٹنٹ " اور " رومن کیتھولک " وغیرہ فرقوں کی باہمی مخالفت میں کوئی ایک فریق بھی نہ آج شاہراہ حق و صداقت پر قائم ہے اور نہ قیامت تک ہوسکتا ہے۔ کیونکہ وہ وحی الہٰی کی روشنی کو جس کے بدون کوئی انسان خدا تعالیٰ اور اس کے قوانین کی صحیح معرفت حاصل نہیں کرسکتا اپنی بےاعتدالیوں اور غلط کاریوں سے ضائع کرچکے ہیں۔ اب جب تک وہ اس محرف " بائبل " کے دامن سے وابستہ رہیں گے محال ہے کہ قیامت تک ان کو رانہ اور محض بےاصول اختلافات اور فرقہ وار بغض وعناد کی ظلمت سے نکل کر حق کا راستہ دیکھ سکیں اور نجات ابدی کی شاہراہ پر چل سکیں۔ باقی جو لوگ آج نفس مذہب خصوصاً عیسائیت کا مذاق اڑاتے ہیں اور جنہوں نے لفظ " مسیحیت " یا موجودہ " بائبل " کو محض چند سیاسی ضرورتوں کے لئے رکھ چھوڑا ہے اس آیت میں ان " نصاریٰ " کا ذکر نہیں اور اگر مان لیا جائے کہ وہ بھی آیت کے تحت میں داخل ہیں تو ان کی باہمی عداوتیں اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ ریشہ دوانیاں اور اعلانیہ محاربات بھی باخبر اصحاب پر پوشیدہ نہیں ہیں۔ 8 یعنی جب تک وہ رہیں گے یہ اختلافات اور بغض وعناد بھی ہمیشہ رہے گا۔ یہاں " قیامت تک " کا لفظ ایسا ہے جیسے ہمارے محاورات میں کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص تو قیامت تک بھی فلاں حرکت سے باز نہ آئے گا۔ اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ شخص قیامت تک زندہ رہے گا اور یہ حرکت کرتا رہے گا۔ مراد یہ ہے کہ اگر قیامت تک بھی زندہ رہے تو اس بات کو نہ چھوڑے گا۔ اسی طرح آیت میں " ِ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ " کا لفظ آنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ " یہود " و " نصاریٰ " کا وجود قیامت تک رہے جیسا کہ ہمارے زمانے کے بعض مبطلین نے اپنی تفسیر میں لکھ دیا ہے۔ 9 یعنی آخرت میں پوری طرح اور دنیا میں بھی بعض واقعات کے ذریعہ سے ان کو اپنی کرتوت کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا۔
Top