Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 59
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب هَلْ تَنْقِمُوْنَ : کیا ضد رکھتے ہو مِنَّآ : ہم سے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اٰمَنَّا : ہم سے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْنَا : ہماری طرف وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاَنَّ : اور یہ کہ اَكْثَرَكُمْ : تم میں اکثر فٰسِقُوْنَ : نافرمان
تو کہہ اے کتاب والو کیا ضد ہے تم کو ہم سے مگر یہی کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو نازل ہوا ہم پر اور جو نازل ہوچکا پہلے اور یہی کہ تم میں اکثر نافرمان ہیں8
8 کسی کام پر طعن کرنا یا ہنسی اڑانا دو وجہ سے ہوسکتا ہے یا تو وہ کام ہی قابل استہزاء ہو یا کام کرنے والے کی حالت تمسخر کے لائق ہو پچھلی آیت میں بتلا دیا گیا کہ اذان کوئی ایسی چیز نہیں جس پر بجز پرلے درجہ کے احمق اور خفیف العقل کے کوئی شخص طعن یا استہزاء کرسکے۔ اس آیت میں اذان دینے والوں کے مقدس حالات پر بعنوان سوال متنبہ کیا گیا ہے یعنی استہزاء کرنے والے جو خیر سے اہل کتاب اور عالم شرائع ہونے کا بھی دعویٰ رکھتے ہیں وہ ذرا سوچ کر انصاف سے بتائیں کہ مسلمانوں سے ان کو اتنی ضد کیوں ہے اور کیا ایسی برائی وہ ہماری طرف دیکھتے ہیں جو ان کے زعم میں لائق استہزاء ہو بجز اس کے کہ ہم اس خدائے وحدہ لاشریک لہ، پر اور اس کی اتاری ہوئی تمام کتابوں اور اس کے بھیجے ہوئے تمام پیغمبروں پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہیں۔ اور اس کے بالمقابل استہزاء کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ نہ خدا کی سچی اور صحیح توحید پر قائم ہیں اور نہ تمام انبیاء و رسل کی تصدیق و تکریم کرتے ہیں۔ اب تم ہی انصاف سے کہو کہ انتہا درجہ کے نافرمان کو خدا کے فرمانبردار بندوں پر آوازہ کسنے اور طعن وتشنیع کرنے کا کہاں تک حق حاصل ہے۔
Top