Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 63
لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
لَوْ : کیوں لَا يَنْھٰىهُمُ : انہیں منع نہیں کرتے الرَّبّٰنِيُّوْنَ : اللہ والے (درویش) وَالْاَحْبَارُ : اور علما عَنْ : سے قَوْلِهِمُ : ان کے کہنے کے الْاِثْمَ : گناہ وَاَكْلِهِمُ : اور ان کا کھانا السُّحْتَ : حرام لَبِئْسَ : برا ہے مَا : جو كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ : وہ کر رہے ہیں
کیوں نہیں منع کرتے ان کے درویش اور علماء گناہ کی بات کہنے سے اور حرام کھانے سے بہت ہی برے عمل ہیں جو کر رہے ہیں4
4 جب خدا کسی قوم کو تباہ کرتا ہے تو اس کی عوام گناہوں اور نافرمانیوں میں غرق ہوجاتے ہیں اور اس کے خواص یعنی درویش اور علماء گونگے شیطان بن جاتے ہیں۔ بنی اسرائیل کا حال یہ ہی ہوا کہ لوگ عموماً دنیاوی لذات و شہوات میں منہمک ہو کر خدا تعالیٰ کی عظمت و جلال اور اس کے قوانین و احکام کو بھلا بیٹھے۔ اور جو مشائخ اور علماء کہلاتے تھے انہوں نے " امر بالمعروف ونہی عن المنکر " کا فریضہ ترک کردیا۔ کیونکہ دنیا کی حرص اور اتباع شہوات میں وہ اپنے عوام سے بھی آگے تھے۔ مخلوق کا خوف یا دنیا کا لالچ حق کی آواز بلند کرنے سے مانع ہوتا تھا۔ اسی سکونت اور مداہنت سے پہلی قومیں تباہ ہوئیں۔ اسی لئے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلٰوۃ والتسلیم کو قرآن و حدیث کی بیشمار نصوص میں بہت ہی سخت تاکید و تہدید کی گئی ہے کہ کسی وقت اور کسی شخص کے مقابلہ میں اس " فرض امر بالمعروف " کے ادا کرنے سے تغافل نہ برتیں۔
Top