Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 81
وَ لَوْ كَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ النَّبِیِّ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰكِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر كَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالنَّبِيِّ : اور رسول وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْهِ : اس کی طرف مَا : نہ اتَّخَذُوْهُمْ : انہیں بناتے اَوْلِيَآءَ : دوست وَلٰكِنَّ : اور لیکن كَثِيْرًا : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور اگر وہ یقین رکھتے اللہ پر اور نبی پر اور جو نبی پر اترا تو کافروں کو دوست نہ بناتے6  لیکن ان میں سے بہت سے لوگ نافرمان ہیں7
6  " النبی " سے بعض مفسرین نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اور بعض نے رسول کریم ﷺ کو مراد لیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر ان یہود کو واقعی یقین حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت اور تعلیمات پر ہوتا تو نبی آخرالزمان کے مقابلہ میں جن کی بشارت خود موسیٰ (علیہ السلام) دے چکے ہیں مشرکین سے دوستی نہ کرتے یا یہ اگر نبی کریم ﷺ پر مخلصانہ ایمان لے آتے تو ایسی حرکت ان سے سر زد نہ ہوتی کہ دشمنان اسلام سے ساز باز کریں۔ اس دوسری تقدیر پر آیت منافقین یہود کے حق میں ہوگی۔ 7 خدا کی اور خود اپنے تسلیم کردہ پیغمبر کی نافرمانی کرتے کرتے یہ حالت ہوگئی کہ اب موحدین پر مشرکین کو ترجیح دیتے ہیں۔ افسوس کہ آج ہم بہت سے نام نہاد مسلمانوں کی حالت بھی یہ ہی پاتے ہیں کہ مسلمان اور کفار کے مقابلہ کے وقت کافروں کو دوست بناتے اور انہی کی حمایت و وکالت کرتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا۔
Top