Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 95
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ وَ مَنْ قَتَلَهٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ هَدْیًۢا بٰلِغَ الْكَعْبَةِ اَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِهٖ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰهُ مِنْهُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَقْتُلُوا : نہ مارو الصَّيْدَ : شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : حالت احرام میں وَمَنْ : اور جو قَتَلَهٗ : اس کو مارے مِنْكُمْ : تم میں سے مُّتَعَمِّدًا : جان بوجھ کر فَجَزَآءٌ : تو بدلہ مِّثْلُ : برابر مَا قَتَلَ : جو وہ مارے مِنَ النَّعَمِ : مویشی سے يَحْكُمُ : فیصلہ کریں بِهٖ : اس کا ذَوَا عَدْلٍ : دو معتبر مِّنْكُمْ : تم سے هَدْيًۢا : نیاز بٰلِغَ : پہنچائے الْكَعْبَةِ : کعبہ اَوْ كَفَّارَةٌ : یا کفارہ طَعَامُ : کھانا مَسٰكِيْنَ : محتاج اَوْ عَدْلُ : یا برابر ذٰلِكَ : اس صِيَامًا : روزے لِّيَذُوْقَ : تاکہ چکھے وَبَالَ اَمْرِهٖ : اپنے کام (کیے) عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے معاف کیا عَمَّا : اس سے جو سَلَفَ : پہلے ہوچکا وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر کرے فَيَنْتَقِمُ اللّٰهُ : تو اللہ بدلہ لے گا مِنْهُ : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب ذُو انْتِقَامٍ : بدلہ لینے والا
اے ایمان والو نہ مارو شکار جس وقت تم ہو احرام میں4 اور جو کوئی تم میں اس کو مارے جان کر5 تو اس پر بدلہ ہے اس مارے ہوئے کے برابر مویشی میں سے جو تجویز کریں دو آدمی معتبر تم میں سے اس طرح سے کہ وہ جانور بدلے کا بطور نیاز پہنچایا جاوے کعبہ تک یا اس پر کفارہ ہے چند محتاجوں کو کھلانا یا اس کے برابر روزے تاکہ چکھے سزا اپنے کام کی6  اللہ نے معاف کیا جو کچھ ہوچکا7 اور جو کوئی پھر کرے گا اس سے بدلہ لے گا اللہ اور اللہ زبردست ہے بدلہ لینے والاف 8
4 اس کے متعلق بعض احکام سورة مائدہ کے شروع میں میں گزر چکے۔ 5 جان کر مارنے کا یہ مطلب ہے کہ اپنا محرم ہونا یاد ہو اور یہ بھی مستحضر ہو کہ حالت احرام میں شکار جائز نہیں۔ یہاں صرف " متعمد " کا حکم بیان فرمایا کہ اس کے فعل کی جزا یہ ہے اور خدا جو انتقام لے گا وہ الگ رہا جیسا کہ ومن عاد فینتقم اللہ منہ سے تنبیہ فرمائی۔ اور اگر بھول کر شکار کیا تو جزاء تو یہ ہی رہے گی یعنی " ہدی " یا " طعام " یا " صیام " البتہ خدا اس سے انتقامی سزا اٹھا لے گا۔ 6  حنفیہ کے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اگر احرام میں شکار پکڑا تو فرض ہے کہ چھوڑ دے۔ اگر مار دیا تو صاحب بصیرت اور تجربہ کار معتبر آدمیوں سے اس جانور کی قیمت لگوائی اسی قدر قیمت کا مویشی میں سے ایک جانور لے کر (مثلاً بکری، گائے، اونٹ وغیرہ) کعبہ کے نزدیک یعنی حدود حرم میں پہنچا کر ذبح کرے، اور خود اس میں سے نہ کھائے یا اسی قیمت کا غلہ لے کر محتاجوں کو فی محتاج صدقۃ الفطر کی مقدار تقسیم کر دے یا جس قدر محتاجوں کو پہنچتا، اتنے ہی دنوں کے روزے رکھ لے۔ 7 یعنی نزول حکم سے پہلے یا اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں کسی نے یہ حرکت کی تھی تو اس سے اب خدا تعرُّض نہیں کرتا۔ حالانکہ اسلام سے پہلے بھی عرب حالت احرام میں شکار کو نہایت برا جانتے تھے اس لئے اس پر مواخذہ ہونا بیجا نہ تھا کہ جو چیز تمہارے زعم کے موافق جرائم میں داخل تھی اس کا ارتکاب کیوں کیا گیا۔ 8 یعنی نہ کوئی مجرم اس کے قبضہ قدرت سے نکل کر بھاگ سکتا ہے اور بہ مقتضائے عدل و حکمت جو جرائم سزا دینے کے قابل ہیں نہ خدا ان سے درگزر کرنے والا ہے۔
Top