Tafseer-e-Usmani - Ar-Rahmaan : 9
وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ
وَاَقِيْمُوا : اور قائم کرو۔ تولو الْوَزْنَ : وزن کو بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَلَا : اور نہ تُخْسِرُوا : خسارہ کر کے دو ۔ نقصان دو الْمِيْزَانَ : میزان میں۔ ترازو میں
اور سیدھی ترازو تو لو انصاف سے اور مت گھٹاؤ تول کو9
9  اوپر سے دو دو چیزوں کے جوڑے بیان ہوتے چلے آرہے تھے۔ یہاں بھی آسمان کی بلندی کے ساتھ آگے زمین کی پستی کا ذکر ہے۔ درمیان میں میزان (ترازو) کا ذکر شاید اس لیے ہو کہ عموماً ترازو کو تولتے وقت آسمان و زمین کے درمیان معلق رکھنا پڑتا ہے۔ یہ اس تقدیر پر ہے کہ میزان سے مراد ظاہری اور حسی ترازو ہو۔ چونکہ اس کے ساتھ بہت سے معاملات کی درستی اور حقوق کی حفاظت وابستہ تھی۔ اس لیے ہدایت فرما دی کہ وضع میزان کی یہ غرض جب ہی حاصل ہوسکتی ہے کہ نہ لیتے وقت زیادہ تولو، نہ دیتے وقت کم، ترازو کے دونوں پلے اور باٹ بٹی میں کمی بیشی نہ ہو۔ نہ تولتے وقت ڈنڈی ماری جائے، بلکہ بدون کم بیشی کے دیانتداری کے ساتھ بالکل ٹھیک ٹھیک تولا جائے۔ (تنبیہ) اکثر سلف نے وضع میزان سے اس جگہ عدل کا قائم کرنا مراد لیا ہے یعنی اللہ نے آسمان سے زمین تک ہر چیز کو حق و عدل کی بنیاد پر اعلیٰ درجہ کے توازن و تناسب کے ساتھ قائم کیا۔ اگر عدل و حق ملحوظ نہ رہے تو کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے۔ لہذا ضروری ہے کہ بندے بھی عدل و حق کے جادہ پر مستقیم رہیں۔ اور انصاف کی ترازو کو اٹھنے یا جھکنے نہ دیں، نہ کسی پر زیادتی کریں نہ کسی کا حق دبائیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ عدل ہی سے زمین و آسمان قائم ہیں۔
Top