Tafseer-e-Usmani - Al-Hadid : 29
لِّئَلَّا یَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَلَّا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
لِّئَلَّا يَعْلَمَ : تاکہ نہ جان پائیں اَهْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اَلَّا يَقْدِرُوْنَ : کہ نہیں وہ قدرت رکھتے عَلٰي شَيْءٍ : اوپر کسی چیز کے مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ : اللہ کے فضل سے وَاَنَّ الْفَضْلَ : اور بیشک فضل بِيَدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاتھ میں ہے يُؤْتِيْهِ : دیتا ہے اس کو مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس کو چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ : بڑے فضل والا ہے
تاکہ نہ جانیں کتاب والے کہ پا نہیں سکتے کوئی چیز اللہ کے فضل میں سے اور یہ کہ بزرگی اللہ کے ہاتھ ہے دیتا ہے جس کو چاہے اور اللہ کا فضل بڑا ہے13
13 یعنی اہل کتاب پہلے پیغمبروں کے احوال سن کر پچھتاتے کہ افسوس ہم ان سے دور پڑگئے۔ ہم کو وہ درجے ملنے محال ہیں جو نبیوں کی صحبت سے حاصل ہوتے ہیں۔ سو یہ رسول، اللہ نے کھڑا کیا اس کی صحبت میں پہلے سے دونا کمال اور بزرگی مل سکتی ہے۔ اور اللہ کا فضل بند نہیں ہوگیا۔ (تنبیہ) حضرت شاہ صاحب نے آیت کی تفسیر اسی طرح کی ہے۔ لیکن اکثر سلف سے یہ منقول ہے کہ یہاں " لِئَلَّایَعْلَمَ " بمعنی " لِکَیْ یَعْلَمَ " کے ہے۔ یعنی تاکہ جان لیں اہل کتاب (جو ایمان نہیں لائے) کہ وہ دسترس نہیں رکھتے اللہ کے فضل پر۔ اور فضل صرف اللہ کے ہاتھ ہے جس پر چاہے کر دے۔ چناچہ اہل کتاب میں سے جو خاتم الانبیاء پر ایمان لائے ان پر یہ فضل کردیا کہ ان کو دوگنا اجر ملتا ہے اور گزشتہ خطاؤں کی معافی اور روشنی مرحمت ہوتی ہے۔ اور جو ایمان نہیں لائے وہ ان انعامات سے محروم ہیں۔ تم سورة الحدید فللہ الحمد والمنۃ۔
Top