Tafseer-e-Usmani - Al-Hashr : 5
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
جو کاٹ ڈالا تم نے کھجور کا درخت یا رہنے دیا کھڑا اپنی جڑ پر سو اللہ کے حکم سے6  اور تاکہ رسوا کرے نافرمانوں کو7
6 جب وہ لوگ قلعہ بند ہوگئے تو حضرت محمد ﷺ نے اجازت دی کہ ان کے درخت کاٹے جائیں اور باغ اجاڑے جائیں تاکہ اس کے درد سے باہر نکل کر لڑنے پر مجبور ہوں اور کھلی ہوئی جنگ کے وقت درختوں کی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ اس پر کچھ درخت کاٹے گئے اور کچھ چھوڑ دیے گئے کہ فتح کے بعد مسلمانوں کے کام آئیں گے۔ کافروں نے طعن کرنا شروع کیا کہ خود تو فساد سے منع کرتے ہیں، کیا درختوں کا کاٹنا اور جلانا فساد نہیں ؟ اس پر یہ آیت اتری۔ یعنی یہ سب کچھ اللہ جل شانہ کے حکم سے ہے۔ حکم الٰہی کی تعمیل کو فساد نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ گہری حکمتوں اور مصلحتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ چناچہ اس حکم کے بعض مصالح اوپر بیان ہو چکیں۔ 7  یعنی تاکہ مسلمانوں کو عزت دے اور کافروں کو ذلیل کرے۔ چناچہ جو درخت چھوڑ دیے گئے اس میں مسلمانوں کی ایک کامیابی اور کفار کو غیظ میں ڈالنا ہے کہ یہ مسلمان ان کو برتیں گے اور نفع اٹھائیں گے اور جو کاٹے یا جلائے گئے اس میں مسلمانوں کی دوسری کامیابی یعنی ظہور آثار غلبہ اور کفار کو غیظ و غضب میں ڈالنا ہے کہ مسلمان ہماری چیزوں میں کیسے تصرفات کر رہے ہیں۔ لہذا دونوں امر جائز اور حکمت پر مشتمل ہیں۔
Top