Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 44
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب نَسُوْا : وہ بھول گئے مَا ذُكِّرُوْا : جو نصیحت کی گئی بِهٖ : اس کے ساتھ فَتَحْنَا : تو ہم نے کھول دئیے عَلَيْهِمْ : ان پر اَبْوَابَ : دروازے كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب فَرِحُوْا : خوش ہوگئے بِمَآ : اس سے جو اُوْتُوْٓا : انہیں دی گئی اَخَذْنٰهُمْ : ہم نے پکڑا ان کو بَغْتَةً : اچانک فَاِذَا : پس اس وقت هُمْ : وہ مُّبْلِسُوْنَ : مایوس رہ گئے
پھر جب وہ بھول گئے اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی کھول دیے ہم نے ان پر دروازے ہر چیز کے یہاں تک کہ جب وہ خوش ہوئے ان چیزوں پر جو ان کی دی گئیں پکڑ لیا ہم نے ان کو اچانک پس اس وقت وہ رہ گئے ناامید3
3 گزشتہ آیت میں عذاب آنے کا احتمال ہوا تھا۔ اب واقعات کا حوالہ دیتے ہیں کہ پہلے زمانے میں اس طرح کے عذاب آ چکے ہیں۔ نیز متنبہ فرما دیا کہ جب مجرم کو ابتدا ہلکی تنبیہ کی جائے تو اسکو معاً خدا کیطرف رجوع ہونا چاہیے۔ سخت دلی اور اغوائے شیطانی سے اسے ہلکا نہ سمجھے۔ موضح القرآن میں ہے کہ گنہگار کو اللہ تعالیٰ تھوڑا سا پکڑتا ہے، اگر وہ گڑ گڑایا توبہ کی تو بچ گیا اور اگر اتنی پکڑ نہ مانی تو پھر بھلاوا دیا اور وسعت عیش کے دروازے کھولے۔ جب نعمتوں کی شکر گزاری اور انعام واحسان سے متأثر ہونے کے بجائے خوب گناہ میں غرق ہوا تو دفعۃ بیخبر پکڑا گیا۔ یہ ارشاد ہے کہ آدمی کو گناہ پر تنبیہ پہنچے تو شتاب توبہ کرے۔ یہ راہ نہ دیکھے کہ اس سے زیادہ پہنچے تو یقین کروں۔
Top