Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 58
قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ لَقُضِیَ الْاَمْرُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِمِیْنَ
قُلْ : کہ دیں لَّوْ : اگر اَنَّ : ہوتی عِنْدِيْ : میرے پاس مَا : جو تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی کرتے ہو بِهٖ : اس کی لَقُضِيَ : البتہ ہوچکا ہوتا الْاَمْرُ : فیصلہ بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِالظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو
تو کہہ اگر ہوتی میرے پاس وہ چیز جس کی تم جلدی کر رہے ہو تو طے ہوچکا ہوتا جھگڑا درمیان میرے اور درمیان تمہارے3 اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو
3 یعنی جس پر چاہے جب چاہے اور جس قسم کا چاہے عذاب بھیجے یا نہ بھیجے ویسے ہی توبہ کی توفیق مرحمت فرما دے، یہ سب اللہ کے قبضہ میں ہے۔ کسی کا حکم اور زور اس کے سوا نہیں چلتا۔ وہ دلائل وبراہین کے ساتھ حق کو بیان کردیتا ہے۔ پھر جو نہ مانیں ان کے متعلق بہترین فیصلہ کرنیوالا بھی وہ ہی ہے۔ اگر ان کا فیصلہ کرنا یا سزا دینا میرے قبضہ اختیار میں ہوتا اور یہ نزول عذاب میں جلدی چاہنے والے مجھ سے عذاب کا مطالبہ کرتے تو اب تک کبھی کا جھگڑا ختم ہوچکا ہوتا۔ یہ تو خدا ہی کے علم محیط، حلم عظیم، حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ کا پر تو ہے کہ بیشمار مصالح و حکم کی رعایت کرتے ہوئے باوجود پوری طرح جاننے اور قدرت رکھنے کے ظالموں پر فوراً عذاب نازل نہیں کرتا۔ آئندہ آیات میں اس کے علم محیط اور قدرت کاملہ کا ذکر ہے تاکہ ثابت ہو کہ تاخیر عذاب جہل یا عجز کی بناء پر نہیں۔
Top