Tafseer-e-Usmani - Al-Qalam : 42
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَۙ
يَوْمَ يُكْشَفُ : جس دن کھول دیاجائے گا عَنْ سَاقٍ : پنڈلی سے وَّيُدْعَوْنَ : اور وہ بلائے جائیں گے اِلَى السُّجُوْدِ : طرف سجدوں کے فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : تو وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں گے
جس دن کہ کھولی جائے پنڈلی اور وہ بلائے جائیں سجدہ کرنے کو، پھر نہ کرسکیں4
4  اس کا قصہ حدیث شیخین میں مرفوعاً اس طرح آیا ہے کہ حق تعالیٰ میدان قیامت میں اپنی ساق ظاہر فرمائے گا " ساق " (پنڈلی) کو کہتے ہیں اور یہ کوئی خاص صفت یا حقیقت ہے صفات و حقائق الٰہیہ میں سے جس کو کسی خاص مناسبت سے " ساق " فرمایا۔ جیسے قرآن میں " ید " (ہاتھ) " وجہ " (چہرہ) کا لفظ آیا ہے۔ یہ مفہومات متشابہات میں سے کہلاتے ہیں۔ ان پر اسی طرح بلا کیف ایمان رکھنا چاہیے جیسے اللہ کی ذات، وجود، حیات اور سمع و بصر وغیرہ صفات پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسی حدیث میں ہے کہ اس تجلی کو دیکھ کر تمام مومنین و مومنات سجدہ میں گرپڑیں گے۔ مگر جو شخص ریا، سے سجدہ کرتا تھا، اس کی کمر نہیں مڑے گی۔ تختہ سی ہو کر رہ جائے گی، اور جب اہل ریاء و نفاق سجدہ پر قادر نہ ہوں گے تو کفار کا اس پر قادر نہ ہونا بطریق اولیٰ معلوم ہوگیا۔ یہ سب کچھ محشر میں اس لیے کیا جائے گا کہ مومن و کافر اور مخلص و منافق صاف طور پر کھل جائیں اور ہر ایک کی اندرونی حالت حسی طور پر مشاہد ہوجائے (تنبیہ) " متشابہات " پر پہلے کلام کیا جا چکا ہے اور حضرت شاہ عبدالعزیز (رح) نے اس آیت " کشف ساق " کی تفسیر میں نہایت عالی اور عجیب تبصرہ متشابہات پر کیا ہے۔ فلیراجع۔
Top