Tafseer-e-Usmani - Al-Qalam : 4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ : البتہ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں
اور تو پیدا ہوا ہے بڑے خلق پر6 
6 یعنی اللہ تعالیٰ نے جن اعلیٰ اخلاق و ملکات پر آپ ﷺ کو پیدا فرمایا، کیا دیوانوں میں ان اخلاق و ملکات کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ ایک دیوانے کے اقوال و افعال میں قطعاً نظم و ترتیب نہیں ہوتی، نہ اس کا کلام اس کے کاموں پر منطبق ہوتا ہے برخلاف اس کے آپ ﷺ کی زبان قرآن ہے اور آپ ﷺ کے اعمال و اخلاق قرآن کی خاموش تفسیر۔ قرآن جس نیکی، جس خوبی اور بھلائی کی طرف دعوت دیتا ہے وہ آپ ﷺ میں فطرۃً موجود، اور جس بدی وزشتی سے روکتا ہے آپ طبعاً اس سے نفوروبیزار ہیں۔ پیدائشی طور پر آپ ﷺ کی ساخت اور تربیت ایسی واقع ہوئی ہے کہ آپ کی کوئی حرکت اور کوئی چیز حد تناسب و اعتدال سے ایک انچ ادھر ادھر ہٹنے نہیں پاتی۔ آپ ﷺ کا حسن اخلاق اجازت نہ دیتا تھا کہ جاہلوں اور کمینوں کے طعن وتشنیع پر کان دھریں جس شخص کا خلق اس قدر عظیم اور مطمح نظر اتنا بلند ہو، بھلا وہ کسی مجنون کے مجنون کہہ دینے پر کیا التفات کرے گا۔ آپ ﷺ تو اپنے دیوانہ کہنے والوں کی نیک خواہی اور درد مندی میں اپنے کو گھلائے ڈالتے تھے جس کی بدولت (فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا) 18 ۔ الکہف :6) کا خطاب سننے کی نوبت آتی تھی۔ فی الحقیقت اخلاق کی عظمت کا سب سے زیادہ عمیق پہلو یہ ہے کہ آدمی دنیا کی ان حقیر ہستیوں سے معاملہ کرتے وقت خداوند قدوس کی عظیم ہستی سے غافل و ذاہل نہ ہو۔ جب تک یہ چیز قلب میں موجود رہے گی تمام معاملات عدل و اخلاق کی میزان میں پورے اتریں گے۔ کیا خوب فرمایا شیخ جنید بغدادی نے " سمی خلقہ عظیما اذلم تکن لہ ہمۃً سوی اللہ تعالیٰ عاشر الخلق بِخُلْقِہٖ وزایلہم بقلبہ فکان ظاہرہ مع الخلق و باطنہ مع الحق " وفی وصیتہ بعض الحکماء " عَلَیْکَ بالْخُلْقِ مَعَ الْخَلْقِ وَبِالصِّدْقِ مَعَ الْحَقِّ ۔ "
Top