Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 133
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ١۫ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ
فَاَرْسَلْنَا : پھر ہم نے بھیجے عَلَيْهِمُ : ان پر الطُّوْفَانَ : طوفان وَالْجَرَادَ : اور ٹڈی وَالْقُمَّلَ : اور جوئیں۔ چچڑی وَالضَّفَادِعَ : اور مینڈک وَالدَّمَ : اور خون اٰيٰتٍ : نشانیاں مُّفَصَّلٰتٍ : جدا جدا فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : ایک قوم (لوگ) مُّجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
پھر ہم نے بھیجا ان پر طوفان3 اور ٹڈی اور چچڑی4 اور مینڈک اور خون بہت سی نشانیاں جدا جدا پھر بھی تکبر کرتے رہے اور تھے وہ لوگ گناہ گار5
3 یعنی بارش اور سیلاب کا طوفان یا طاعون کی وجہ سے موت کا طوفان علیٰ اختلاف الاقوال۔ 4 " قمل " سے مراد چچڑیاں ہیں، جیسا کہ مترجم رحمۃ اللہ نے اختیار کیا۔ یا جوئیں یا گیہوں وغیرہ غلہ میں جو کیڑا لگ جاتا ہے جس سے غلہ خراب ہوجاتا ہے یعنی بدن اور کپڑوں میں چچڑیاں اور جوئیں پڑگئیں۔ غلہ میں گھن لگ گیا۔ 5 یعنی تھوڑے تھوڑے وقفہ کے ساتھ یہ سب آیات دکھلائی گئیں مگر وہ کچھ ایسے متکبرانہ، جرائم پیشہ اور پرانے گنہگار تھے کہ کسی طرح مان کر نہ دیا سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ جب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے مطالبہ (بنی اسرائیل کی آزادی) کو تسلیم نہ کیا تو حق تعالیٰ نے بارش کا طوفان بھیجا، جس سے کھیتیوں وغیرہ کی تباہی کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔ آخر گھبرا کر حضرت موسیٰ سے درخواست کی کہ تم اپنے خدا سے کہہ کر یہ بلائے طوفان دور کرا دو تو ہم بنی سرائیل کو آزادی دے کر تمہارے ساتھ روانہ کردیں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے بارش بند ہوگئی اور بجائے نقصان کے پیداوار بہت کثرت سے ہوئی۔ فرعونی عذاب سے بےفکر ہو کر اپنے عہد پر قائم نہ رہے، تب اللہ تعالیٰ نے تیار کھیتیوں پر ٹڈی دل بھیج دیا جسے دیکھ کر پھر گھبرائے کہ یہ نئی آفت کہاں سے آگئی پھر موسیٰ (علیہ السلام) سے دعاء کی درخواست کی اور پختہ وعدے کئے کہ اگر یہ عذاب ٹل گیا تو ہم ضرور بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے۔ جب یہ عذاب بھی اٹھا لیا گیا تو پھر مطمئن ہوگئے اور سب وعدے فراموش کر دئیے۔ آخر جس وقت غلہ اٹھا کر مکانوں میں بھر لیا تو خدا کے حکم سے غلہ میں گھن لگ گیا۔ پھر موسیٰ سے دعاء کرائی اور بڑے پکے عہد و پیمان کیے۔ لیکن جہاں وہ حالت ختم ہوئی بدستور سابق سرکشی اور بدعہدی کرنے لگے تو خدا نے ان کا کھانا پینا بےلطف کردیا مینڈک اس قدر کثرت سے پیدا کردیئے گئے کہ ہر کھانے اور برتن میں مینڈک نظر آتا تھا۔ جب بولنے یا کھانے کے لیے منہ کھولتے مینڈک جست کر کے منہ میں پہنچتا تھا اور ویسے بھی اس جانور کی کثرت نے رہنا سہنا مشکل کردیا۔ ادھر پینے کے لیے جو پانی لینا چاہتے تھے وہ خدا کے حکم سے برتنوں میں یا منہ میں پہنچ کر خون بن جاتا۔ غرض کھانے پینے تک سے عاجز ہو رہے تھے اس پر بھی شیخی اور اکڑفوں وہ ہی تھی۔
Top