Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 13
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ
قَالَ : فرمایا فَاهْبِطْ : پس تو اتر جا مِنْهَا : اس سے فَمَا : تو نہیں يَكُوْنُ : ہے لَكَ : تیرے لیے اَنْ : کہ تَتَكَبَّرَ : تو تکبر کرے فِيْهَا : اس میں (یہاں) فَاخْرُجْ : پس نکل جا اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الصّٰغِرِيْنَ : ذلیل (جمع)
کہا تو اتر یہاں سے1 تو اس لائق نہیں کہ تکبر کرے یہاں پس باہر نکل تو ذلیل ہے2
1 یعنی تمہاری تخلیق سے پہلے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا سامان کیا۔ پھر تمہارا مادہ پیدا فرمایا۔ پھر اس مادہ کو ایسا دلکش نقشہ اور حسین و جمیل صورت عطا کی جو کسی دوسری مخلوق کو عطا نہ کی گئی تھی۔ پھر اس تصویر خاکی کو وہ روح اور حقیقت مرحمت ہوئی جس کی بدولت تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) جن کا وجود تمام افراد انسانی کے وجود پر اجمالاً مشتمل تھا۔ " خلیفتہ اللہ " و " مسجود ملائکہ " بنے۔ پھر جس نے اس وقت سجود تعظیمی سے سرتابی کی وہ مردود ازلی ٹھہرا کیونکہ وہ سجود خلافت الہٰیہ کے نشان کے طور پر تھا " ملائیکۃ اللہ " جو بحث و تمحیص اور صریح امتحان کے بعد آدم کی علمی فضیلت اور روحانی کمالات پر مطلع ہوچکے تھے حکم الہٰی سنتے ہی سجدہ میں گرپڑے اور اس طرح خلیفۃ اللہ کے روبرو اپنے پروردگار حقیقی کی کامل وفا شعاری اور اطاعت پذیری کا ثبوت دیا اور ابلیس لعین جو ناری الاصل جنی مگر کثرت عبادت وغیرہ کی وجہ سے زمرہ ملائکہ میں شامل ہوگیا تھا، آخرکار اپنی اصل کی طرف لوٹا۔ اس کی نظر آدم کی مادی ساخت سے نفخت فیہ من روحی کے راز تک تجاوز نہ کرسکی۔ اسی لئے صریح حکم الہٰی کے مقابلہ پر انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین کا دعویٰ کرنے لگا۔ آخر اسی اباء و استکبار اور نص صریح قاطع کو محض رائے وہوا سے رد کردینے اور خدا سے بحث ومناظرہ ٹھان لینے کی پاداش میں ہمیشہ کے لئے مرتبہ قرب سے نیچے گرا دیا اور رحمت الہٰیہ سے بہت دور پھینک دیا گیا۔ فی الحقیقت جس چیز پر اسے بڑا فخر تھا کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے، وہ ہی اس کی ہلاکت ابدی کا سبب ہوئی۔ آگ کا خاصہ خفت و حدت، سرعت و طیش اور علوو افساد ہے بخلاف مٹی کے کہ اس میں مستقل مزاجی، متانت اور متواضعانہ حلم و تثبت پایا جاتا ہے۔ ابلیس جو ناری الاصل تھا سجدہ کا حکم سن کر آگ بگولا ہوگیا اور رائے قائم کرنے میں تیزی اور جلد بازی دکھلائی۔ چناچہ ان کی استقامت وانابت نے ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہ، فَتَابَ عَلَیہ وَھَدٰی کا نتیجہ پیدا کیا۔ اسی لئے کہا جاسکتا ہے کہ ابلیس لعین نے مادی و عنصری لحاظ سے بھی اپنی تفصیل کے دعوے میں ٹھوکر کھائی۔ چناچہ حافظ شمس الدین ابن القیم نے بدائع لغوائد میں پندرہ وجوہ سے مٹی کا آگ سے افضل ہونا ثابت کیا ہے۔ من شآء فلیر جعہ۔ 2 یعنی جنت میں یا آسمانوں پر خدا کی مخلوق رہ سکتی ہے جو خدا کی پوری مطیع و فرمانبردار ہو، نافرمان متکبروں کے لئے وہاں گنجائش نہیں، بہرحال ابلیس لعین عزت کے اس مقام سے جس پر کثرت عبادت وغیرہ کی وجہ سے اب تک فائز تھا، بڑا بول بولنے کی بدولت نیچے دھکیل دیا گیا (تنبیہ) ابلیس کے مدت دراز تک زمرہ ملائکہ میں شامل رکھنے سے متنبہ کردیا ہے کہ حق تعالیٰ نے مکلفین میں کسی کی فطرت حتیٰ کہ شیطان کی بھی ایسی نہیں بنائی کہ وہ صرف بدی کی طرف جانے کے لئے مجبور و مضطر ہوجائے بلکہ خبیث سے خبیث ہستی بھی اصل فطرت کے اعتبار سے اس کی صلاحیت رکھتی ہے کہ اپنے کسب و اختیار سے نیکی اور پرہیزگاری میں انتہائی ترقی کر کے زمرہ ملائکہ میں جا ملے۔
Top