Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 15
قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ
قَالَ : وہ بولا اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الْمُنْظَرِيْنَ : مہلت ملنے والے
فرمایا تجھ کو مہلت دی گئی3
3 یعنی جب تو نے یہ درخواست کی تو سمجھ لے کہ یہ پہلے سے علم الہٰی میں طے شدہ ہے کہ تجھ کو مہلت دی جائے۔ جب حکمت الہٰیہ مقتضی ہوئی کہ حق تعالیٰ اپنی صفات کمالیہ و شہنشاہانہ عظمت و جبروت کا مظاہرہ کرے تو اس نے عالم کو پیدا فرمایا۔ (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا) 65 ۔ الطلاق :12) یعنی زمین و آسمان کی تخلیق اور ان کے کل نظم و نسق سے مقصود یہ ہے کہ خدا کی قدرت کاملہ اور علم محیط وغیرہ صفات کی معرفت لوگوں کو حاصل ہو۔ اسی معرفت الہٰیہ کو آیت وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدْون میں بعض سلف کی تفسیر کے موافق عبادت سے تعبیر فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ تخلیق عالم سے یہ غرض بوجہ اتم جب ہی پوری ہوسکتی ہے کہ مخلوقات میں اس کی ہر قسم کی صفات و کمالات کا اظہار ہو، اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ عالم میں مطیع و وفادار اور باغی و مجرم ہر قسم کی مخلوق موجود ہو۔ نیز اعداء اللہ کو پوری زور آزمائی اور ان کے پیدائشی اختیار و قوت کے تمام وسائل استعمال کرنے کی آخری حد تک مہلت و آزادی دی جائے پھر انجام کار حکومت الہٰیہ کا لشکر غالب ہو، دشمن اپنے کیفر کردار کو پہنچیں اور بعد امتحان آخری کامیابی دوستوں کے ہاتھ رہے، اس کے بدون کل صفات کمالیہ کے ظاہر ہونے کی صورت نہیں۔ پس خیر و شر اور منبع خیر و شر کا پیدا کرنا، اسی حکمت سے ہے کہ جو غرض تخلیق عالم کی ہے یعنی " صفات کمالیہ کا مظاہرہ " وہ بغیر اس کے پوری نہ ہوسکتی تھی (وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ 118؀ۙ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ ۭ وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ ) 11 ۔ ہود :18-19) اسی لئے ضروری ہوا کہ عدو اکبر ابلیس لعین کو جو منبع شر ہے پوری مہلت دی جائے کہ وہ تا قیام قیامت اپنے قویٰ و وسائل کو جی کھول کر استعمال کرلے لیکن یہ چیز ظاہر ہے کہ براہ راست اس محیط کل اور قادر مطلق کے مقابلہ پر ممکن نہ تھی، اس لئے ضروری ہوا کہ خدا کی طرف سے بطور نیابت و خلافت ایک ایسی مخلوق مقابلہ پر لائی جائے جس سے ابلیس لعین کو آزادی کے ساتھ جنگ آزمائی کا موقع مل سکے۔ (وَاَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۭ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا) 17 ۔ الاسراء :64) اور پھر جب تک وہ مخلوق حق نیابت اور وظیفہ خلافت ادا کرتی رہے، خاص شاہی فوج (ملائکہ) سے اس کو کمک پہنچائی جائے اور باوجود ضعف و قلت کے اپنے فضل رحمت سے انجام کار دشمنوں کے مقابلہ میں مظفر و منصور کیا جائے۔ پس خوب سمجھ لو کہ یہ زمین ابلیس اور آدم کا میدان جنگ ہے اور چونکہ پوری طرح جان توڑ مقابلہ اسی وقت ہوسکتا تھا کہ دونوں حریف ایک دوسرے سے خار کھائے ہوں اس لئے تکویناً دو صورتیں ایسی پیش آگئیں جن سے ہر ایک کے دل میں دوسرے کی دشمنی جاگزیں ہوجائے۔ ابلیس آدم کو سجدہ نہ کرنے کی بناء پر نیچے گرایا گیا اور آدم کو ابلیس کی وسوسہ اندازی کی بدولت جنت سے علیحدہ ہونا پڑا۔ ان واقعات سے ہر ایک کے دل میں دوسرے کی عداوت کی جڑ قائم ہو کر معرکہ کار زار گرم ہوگیا۔ والحرب سجال وانما العبرۃ للخواتیم۔
Top