Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 190
فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَا١ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اٰتٰىهُمَا : اس نے دیا انہیں صَالِحًا : صالح بچہ جَعَلَا : ان دونوں نے ٹھہرائے لَهٗ : اس کے شُرَكَآءَ : شریک فِيْمَآ : اس میں جو اٰتٰىهُمَا : انہیں دیا فَتَعٰلَى : سو برتر اللّٰهُ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
پھر جب ان کو دیا چنگا بھلا تو بنانے لگے اس کے لیے شریک اس کی بخشی ہوئی چیز میں سو اللہ برتر ہے ان کے شریک بنانے سے1
1 خدا نے سب انسانوں کو آدم سے پیدا کیا۔ آدم کے انس اور سکون وقرار حاصل کرنے کے لیے اسی کے اندر اس کا جوڑا (حواء) بنایا۔ پھر دونوں سے نسل چلی۔ جب مرد نے عورت سے فطری خواہش پوری کی تو عورت حاملہ ہوئی، حمل کی ابتدائی حالت میں کوئی گرانی نہ تھی۔ عورت حسب معمول چلتی پھرتی اور اٹھتی بیٹھتی رہی۔ جب پیٹ بڑھ گیا، اور یہ کون جان سکتا تھا کہ اس کے اندر کیا چیز پوشیدہ ہے، تب مرد و عورت دونوں نے حق تعالیٰ کی جناب میں عرض کیا کہ اگر آپ اپنے فضل سے بھلا چنگا کار آمد بچہ عنایت فرمائیں گے تو ہم دونوں (بلکہ ہماری نسل بھی) تیرا شکر ادا کرتی رہے گی۔ خدا نے جب ان کی یہ تمنا پوری کردی تو ہماری دی ہوئی چیز میں اوروں کے حصے لگانے شروع کردیئے مثلاً کسی نے عقیدہ جما لیا کہ یہ اولاد فلاں زندہ یا مردہ مخلوق نے ہم کو دی ہے، کسی نے اس عقیدہ سے نہیں تو عملاً اس کی نذر و نیاز شروع کردی، یا بچہ کی پیشانی اس کے سامنے ٹیک دی یا بچہ کا نام ایسا رکھا جس سے شرک کا اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً عبدالعزیٰ یا عبدالشمس وغیرہ، غرض جو حق منعم حقیقی کا تھا وہ اعتقاداً یا فعلاً یا قولاً دوسروں کو دے دیا گیا۔ خوب سمجھ لو کہ حق تعالیٰ تمام انواع و مراتب شرک سے بالا و برتر ہے۔ ان آیات میں حسن بصری وغیرہ کی رائے کے موافق خاص آدم وحوا کا نہیں بلکہ عام انسانوں کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ بیشک ابتداء ( هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا) 7 ۔ الاعراف :189) میں بطور تمہید آدم و حوا کا ذکر تھا، مگر اس کے بعد مطلق مرد و عورت کے ذکر کی طرف منتقل ہوگئے اور ایسا بہت جگہ ہوتا ہے کہ شخص کے ذکر سے جنس کے ذکر کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں جیسے (وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـيٰطِيْنِ ) 67 ۔ الملک :5) جن سیاروں کو " مصابیح " فرمایا ہے وہ ٹوٹنے والے ستارے نہیں۔ جن سے " رجم شیاطین " ہوتا ہے۔ مگر شخص " مصابیح " سے جنس " مصابیح " کی طرف کلام کو منتقل کردیا گیا۔ اس تفسیر کے موافق " جَعَلَالَہ، شُرَکَاء " میں کچھ اشکال نہیں۔ مگر اکثر سلف سے یہی منقول ہے کہ ان آیات میں صرف آدم و حوا کا قصہ بیان فرمایا ہے۔ کہتے ہیں کہ ابلیس ایک نیک مخلوق کی صورت میں حوا کے پاس آیا اور فریب دے کر ان سے وعدہ لے لیا کہ اگر لڑکا پیدا ہو تو اس کا نام عبدالحارث رکھیں ہوا نے آدم کو بھی راضی کرلیا۔ اور جب بچہ پیدا ہوا تو دونوں نے عبدالحارث نام رکھا (حارث ابلیس کا نام تھا جس سے وہ گروہ ملائکہ میں پکارا جاتا تھا) ظاہر ہے کہ اسمائے اعلام میں لغوی معنی معتبر نہیں ہوتے اور ہوں بھی تو " عبد " کی اضافت " حارث " کی طرف اس کو مستلزم نہیں کہ " حارث " کو معاذ اللہ معبود سمجھ لیا جائے۔ ایک مہمان نواز آدمی کو عرب " عبدالضیف " کہہ دیتے ہیں۔ (یعنی مہمان کا غلام) اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ گویا میزبان مہمان کی پوجا کرتا ہے۔ پس اگر " عبدالحارث " نام رکھنے کا یہ واقعہ صحیح ہے تو نہیں کہا جاسکتا کہ آدم (علیہ السلام) نے معاذ اللہ حقیقۃً شرک کا ارتکاب کیا جو انبیاء کی شان عصمت کے منافی ہے۔ ہاں بچہ کا ایسا غیر موزوں نام رکھنا جس سے بظاہر شرک کی بو آتی ہو نبی معصوم کی شان رفیع اور جذبہ توحید کے مناسب نہ تھا۔ قرآن کریم کی عادت ہے کہ انبیائے مقربین کی چھوٹی سی لغزش اور ادنیٰ ترین ذلّت کو " حسنات الابرار سیٔات المقربین " کے قاعدوں کے مطابق اکثر سخت عنوان سے تعبیر کرتا ہے جیسے یونس (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَعَلَیْہِ یا فرمایا (اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا) 12 ۔ یوسف :110) علیٰ توجیہ بعض المفسرین اسی طرح یہاں بھی آدم (علیہ السلام) کے رتبہ کے لحاظ سے اس موہم شرک تسمیہ کو تغلیظاً ان الفاظ میں ادا فرمایا۔ جعلا لہ شرکاء فیما اٰتاہما (خدا کی دی ہوئی چیز میں حصہ دار بنانے لگے) یعنی ان کی شان کے لائق نہ تھا کہ ایسا نام رکھیں جس کی سطح سے شرک کا وہم ہوتا ہے۔ گو حقیقۃً شرک نہیں۔ شاید اسی لیے فَقَدْ اَشْرَكاَ وغیرہ مختصر عبارت چھوڑ کر یہ طویل عنوان (جَعَلَا لَهٗ شُرَكَاۗءَ فِيْمَآ اٰتٰىهُمَا) 7 ۔ الاعراف :190) اختیار فرمایا واللہ اعلم۔ (تنبیہ) حافظ عماد الدین ابن کثیر نے بتلایا ہے کہ عبدالحارث نام رکھنے کی حدیث مرفوع جو ترمذی میں ہے، وہ تین وجہ سے معلول ہے۔ رہے آثار، وہ غالباً اہل کتاب کی روایت سے ماخوذ ہیں واللہ اعلم۔
Top