Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 200
وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِمَّا : اور اگر يَنْزَغَنَّكَ : تجھے ابھارے مِنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان نَزْغٌ : کوئی چھیڑ فَاسْتَعِذْ : تو پناہ میں آجا بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنَّهٗ : بیشک وہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر ابھارے تجھ کو شیطان کی چھیڑ تو پناہ مانگ اللہ سے وہی ہے سننے والا جاننے والاف 4
4 خُذِ الْعَفْوَ ، کے معنی کئے گئے ہیں۔ اکثر کا حاصل یہ ہے کہ سخت گیری اور تندخوئی سے پرہیز کیا جائے اسی کو مترجم محقق نے " درگزر کی عادت " سے تعبیر فرمایا ہے۔ گزشتہ آیات میں بت پرستوں کی جو تحمیق و تجہیل کی گئی تھی بہت ممکن تھا کہ جاہل مشرکین اس پر برہم ہو کر ناشائستہ حرکت کرتے یا برا لفظ زبان سے نکالتے، اس لیے ہدایت فرما دی کہ عفو و درگزر کی عادت رکھو، نصیحت کرنے سے مت رکو، معقول بات کہتے رہو اور جاہلوں سے کنارہ کرو یعنی ان کی جہالت آمیز حرکتوں پر روز روز سے الجھنے کی ضرورت نہیں۔ جب وقت آئے گا ذرا سی دیر میں ان کا سب حساب بےباق ہوجائے گا۔ اور اگر کسی وقت بمقتضائے بشریت ان کی کسی نالائق حرکت پر غصہ آجائے اور شیطان لعین چاہے کہ دور سے چھیڑ چھاڑ کر کے آپ کو ایسے معاملہ پر آمادہ کر دے جو خلاف مصلحت ہو یا آپ کے " خلق عظیم " اور حلم و متانت کے شایاں نہ ہو، تو آپ فوراً اللہ سے پناہ طلب کیجئے آپ کی عصمت و وجاہت کے سامنے اس کا کوئی کید نہیں چل سکے گا۔ کیونکہ خداوند قدیر جو ہر مستعیذ کی بات سننے والا اور ہر حالت کا جاننے والا ہے، اسی نے آپ کی صیانت کا تکفل فرمایا ہے۔
Top