Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 36
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو وَاسْتَكْبَرُوْا : اور تکبر کیا عَنْهَآ : ان سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے هُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو اور تکبر کیا ان سے وہی ہیں دوزخ میں رہنے والے وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے5
5 ابن جریر نے ابو یسار سلمی سے نقل کیا ہے کہ یہ خطاب (يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ ) 7 ۔ الاعراف :35) کل اولاد آدم کو عالم ارواح میں ہوا تھا۔ جیسا کہ سورة بقرہ کے سیاق سے ظاہر ہوتا ہے۔ (قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى) 2 ۔ البقرۃ :38) اور بعض محققین کے نزدیک جو خطاب ہر زمانہ میں ہر قوم کو ہوتا رہا، یہ اس کی حکایت ہے میرے نزدیک دو رکوع پہلے سے جو مضمون چلا آرہا ہے اس کی ترتیب و تنسیق خود ظاہر کرتی ہے کہ جب آدم و حوا اپنے اصلی مسکن (جنت) سے جہاں ان کو آزادی و فراخی کے ساتھ بلا روک ٹوک زندگی بسر کرنے کا حکم دیا جا چکا تھا۔ عارضی طور پر محروم کردیئے گئے تو ان کی مخلصانہ توبہ وانابت پر نظر کرتے ہوئے مناسب معلوم ہوا کہ اس حرمان کی تلافی اور تمام اولاد آدم کو اپنی آبائی میراث واپس دلانے کے لئے کچھ ہدایات کی جائیں۔ چناچہ ہبوط آدم کا قصہ ختم کرنے کے بعد معًا ( يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا) 7 ۔ الاعراف :26) سے خطاب شروع فرما کر تین چار رکوع تک ان ہی ہدایات کا مسلسل بیان ہوا ہے۔ ان آیات میں کل اولاد آدم کو گویا بیک وقت موجود تسلیم کر کے عام خطاب کیا گیا ہے کہ جنت سے نکلنے کے بعد ہم نے بہشتی لباس و طعام کی جگہ تمہارے لئے زمینی لباس و طعام کی تدبیر فرما دی گو جنت کی خوشحالی اور بےفکری یہاں میسر نہیں تاہم ہر قسم کی راحت و آسائش کے سامان سے منتفع ہونے کا تم کو موقع دیا تاکہ تم یہاں رہ کر اطمینان سے اپنا مسکن اصلی اور آبائی ترکہ واپس لینے کی تدبیر کرسکو۔ چاہیے کہ شیطان لعین کے مکرو فریب سے ہشیار رہو، کہیں ہمیشہ کے لئے تم کو اس میراث سے محروم نہ کر دے۔ بےحیائی اور اثم وعدوان سے بچو۔ اخلاص و عبودیت کا راستہ اختیار کرو۔ خدا کی نعمتوں سے تمتع کرو مگر جو حدود وقیود مالک حقیقی نے عائد کردی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔ پھر دیکھو ہر قوم اپنی اپنی مدت موعودہ پوری کر کے کس طرح اپنے ٹھکانہ پر پہنچ جاتی ہے۔ اس اثناء میں اگر خدا کسی وقت تم ہی میں سے اپنے پیغمبر مبعوث فرمائے جو خدا کی آیات پڑھ کر سنائیں جن سے تم کو اپنے باپ کی اصلی میراث (جنت) حاصل کرنے کی ترغیب و تذکیر ہو اور مالک حقیقی کی خوشنودی کی راہیں معلوم ہوں، ان کی پیروی اور مدد کرو۔ خدا سے ڈر کر برے کاموں کو چھوڑ دو اور اعمال صالحہ اختیار کرو تو پھر تمہارا مستقبل بالکل بےخوف و خطر ہے۔ تم ایسے مقام پر پہنچ جاؤ گے جہاں سکھ اور امن و اطمینان کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں، ہاں اگر ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور تکبر کر کے ان پر عمل کرنے سے کترائے تو مسکن اصلی اور آبائی میراث سے دائمی محرومی اور ابدی عذاب و ہلاکت کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ بہرحال جو لوگ اس آیت سے ختم نبوت کی نصوص قطعیہ کے خلاف قیامت تک کے لئے انبیاء ورسل کی آمد کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں ان کے لئے اس جگہ کوئی موقع اپنی مطلب برآوری کا نہیں۔
Top