Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
پکارو اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے10 اس کو خوش نہیں آتے حد سے بڑھنے والے11
10 جب " عالم خلق و امر " کا مالک اور تمام برکات کا منبع وہ ہی ذات ہے تو دنیاوی و اخروی حوائج میں اسی کو پکارنا چاہئے۔ الحاح و اخلاص اور خشوع کے ساتھ بدون ریا کاری کے ساتھ آہستہ آہستہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا میں اصل اخفاء ہے اور یہی سلف کا معمول تھا، بعض مواقع میں جہر و اعلان کسی عارض کی وجہ سے ہوگا جس کی تفصیل روح المعانی وغیرہ میں ہے۔ 11 یعنی دعاء میں حد ادب سے نہ بڑھے۔ مثلاً جو چیزیں عادتاً یا شرعاً محال ہیں وہ مانگنے لگے یا معاصی اور لغو چیزوں کی طلب کرے، یا ایسا سوال کرے جو اس کی شان و حیثیت کے مناسب نہیں یہ سب " اعتداء فی الدعاء " میں داخل ہے۔
Top