Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 60
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار مِنْ : سے قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنَّا : بیشک ہم لَنَرٰكَ : البتہ تجھے دیکھتے ہیں فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
بولے سردار اس کی قوم کے ہم دیکھتے ہیں تجھ کو صریح بہکا ہوا3
3 آدم (علیہ السلام) کا قصہ ابتدائے سورت میں گزر چکا۔ ان کے بعد نوح (علیہ السلام) پہلے اولوالعزم اور مشہور رسول ہیں جو زمین والوں کی طرف مشرکین کے مقابلے میں بھیجے گئے گو باعتبار اپنی خاص شریعت کے ان کی بعثت خاص اپنی قوم کی طرف مانی جائے تاہم ان اساسی اصولوں کے اعتبار سے جو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیم میں مشترک ہیں کہا جاسکتا ہے کہ تمام انسان ہر نبی کے مخاطب ہوتے ہیں مثلاً توحید اور اقرار معاد کی تعلیم پر سارے پیغمبر متفق اللسان ہیں تو ایسی چیزوں کی تکذیب کرنا فی الحقیقت تمام انبیاء کی تکذیب کرنا ہے۔ بہرحال نوح (علیہ السلام) نے توحید وغیرہ کی عام دعوت دی۔ کہتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کے بعد دس قرن ایسے گزرے کہ ساری اولاد آدم کلمہ توحید پر قائم تھی بت پرستی کی ابتداء ابن عباس کے بیان کے موافق یوں ہوئی کہ بعض صالحین کا انتقال ہوگیا جن کے نام وَد، سواع، یغوث، یعوق، نسر تھے، جو سورة نوح میں مذکور ہیں۔ لوگوں نے ان کی تصویریں بنالیں تاکہ ان کے احوال و عبادات وغیرہ کی یاد تازہ رہے کچھ مدت کے بعد ان صورتوں کے موافق مجسمے تیار کر لئے حتی کہ کچھ دنوں کے بعد ان کی عبادت ہونے لگی اور یہ بت انہی بزرگوں کے نام سے موسوم کئے گئے۔ جب بت پرستی کی وباء پھیل گئی تو حق تعالیٰ نے نوح کو بھیجا۔ انہوں نے طوفان سے پہلے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو برس تک توحید وتقویٰ کی طرف بلایا۔ اور دنیا و آخرت کے عذاب سے ڈرایا مگر لوگوں نے ان کی تضلیل و تجہیل کی اور کوئی بات نہ سنی آخر طوفان کے عذاب نے سب کو گھیر لیا اور جیسا کہ نوح نے دعاء کی تھی ربِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا۔ روئے زمین پر کوئی کافر عذاب الٰہی سے نہ بچا۔ بستانی نے " دائرۃ المعارف " میں یورپین محققین کے اقوال طوفان اور عموم طوفان کے متعلق نقل کئے ہیں۔
Top