Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 96
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ ہوتا کہ اَهْلَ الْقُرٰٓي : بستیوں والے اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کرتے لَفَتَحْنَا : تو البتہ ہم کھول دیتے عَلَيْهِمْ : ان پر بَرَكٰتٍ : برکتیں مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلٰكِنْ : اور لیکن كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا فَاَخَذْنٰهُمْ : تو ہم نے انہیں پکڑا بِمَا : اس کے نتیجہ میں كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : جو وہ کرتے تھے
اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم کھول دیتے ان پر نعمتیں آسمان اور زمین سے لیکن جھٹلایا انہوں نے پس پکڑا ہم نے ان کو ان کے اعمال کے بدلے3
3 یعنی ہم کو بندوں سے کوئی ضد نہیں جو لوگ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوتے ہیں یہ انہی کی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ لوگ ہمارے پیغمبروں کو مانتے اور حق کے سامنے گردن جھکاتے اور کفر و تکذیب وغیرہ سے بچ کر تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو ہم ان کو آسمانی و زمینی برکات سے مالا مال کردیتے۔ امام رازی (رح) نے فرمایا کہ برکت کا لفظ دو معنی میں استعمال ہوتا ہے کبھی تو خیر باقی و دائم کو برکت سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی کثرت آثار فاضلہ پر یہ لفظ اطلاق کیا جاتا ہے۔ لہذا آیت کی مراد یہ ہوگی کہ ایمان وتقویٰ اختیار کرنے پر ان آسمانی و زمینی نعمتوں کے دروازے کھول دئیے جاتے جو دائمی اور غیر منقطع ہوں یا جن کے آثار فاضلہ بہت کثرت سے ہوں۔ ایسی خوشحالی نہیں، جو مکذبین کو چند روز کے لیے بطور امہال و استدراج حاصل ہوتی ہے اور انجام کار دنیا میں ورنہ آخرت میں تو ضرور ہی وبال جان بنتی ہے۔
Top