Tafseer-e-Usmani - Al-Anfaal : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَخُوْنُوا : خیانت نہ کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول وَتَخُوْنُوْٓا : اور نہ خیانت کرو اَمٰنٰتِكُمْ : اپنی امانتیں وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اے ایمان والو ! خیانت نہ کرو اللہ سے اور رسول سے اور خیانت نہ کرو آپس میں اور امانتوں میں جان کر6 
6  خدا و رسول کی خیانت یہ ہے کہ ان کے احکام کی خلاف ورزی کی جائے۔ زبان سے اپنے کو مسلمان کہیں اور کام کفار کے کریں یا جس کام پر خدا و رسول نے مامور کیا ہو اس میں دغل فصَل کیا جائے۔ یا مال غنیمت میں چوری کی جائے۔ ونحو ذالک۔ بہرحال ان تمام امانتوں میں جو خدا اور رسول یا بندوں کی طرف سے تمہارے سپرد کی جائیں، خیانت سے بچو۔ اس میں ہر قسم کے حقوق العباد آگئے۔ روایات میں ہے کہ یہود " بنی قریظہ " نے جب حضور ﷺ سے صلح کی درخواست کی اور یہ کہ ان کے ساتھ وہ ہی معاملہ کیا جائے جو بنی النضیر کے ساتھ ہوا ہے۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ " نہیں، میں تم کو اتنا حق دیتا ہوں کہ سعد بن معاذ کو حکم بنا لو، جو فیصلہ وہ تمہاری نسبت کردیں وہ منظور ہونا چاہیے انہوں نے حضرت ابو لبابہ کو حضور ﷺ سے اجازت لے کر اپنے یہاں بلایا اور دریافت کیا کہ تمہاری اس معاملہ میں کیا رائے ہے ؟ ہم سعد بن معاذ کی تحکیم منظور کریں یا نہ کریں۔ ابو لبابہ کے اموال اور اہل و عیال بنی قریظہ کے یہاں تھے، اس لیے وہ ان کی خیر خواہی کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے حلقوم کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا، یعنی اگر سعد بن معاذ کی تحکیم قبول کی تو ذبح ہوجاؤ گے۔ ابو لبابہ اشارہ تو کر گزرے مگر معًا متنبہ ہوا کہ میں نے خدا و رسول کی خیانت کی۔ واپس آ کر اپنے کو ایک ستون سے باندھ دیا اور عہد کیا کہ نہ کچھ کھاؤں گا نہ پیوں گا حتی کہ موت آجائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے۔ سات آٹھ دن یونہی بندھے رہے۔ فاقہ سے غشی طاری ہوگئی۔ آخر بشارت پہنچی کہ حق تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کی۔ کہا خدا کی قسم میں اپنے کو نہ کھولوں گا جب تک خود نبی کریم ﷺ اپنے دست مبارک سے میری رسی نہ کھولیں۔ آپ تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے اپنے قیدی کو آزاد کیا۔ الیٰ آخر القصہ ابن عبدالبر کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے کی بناء پر پیش آیا تھا واللہ اعلم۔
Top