Tafseer-e-Usmani - Al-Anfaal : 4
اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا١ؕ لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) حَقًّا : سچے لَهُمْ : ان کے لیے دَرَجٰتٌ : درجے عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَمَغْفِرَةٌ : اور بخشش وَّرِزْقٌ : اور رزق كَرِيْمٌ : عزت والا
وہی ہیں سچے ایمان والے ان کے لیے درجے ہیں اپنے رب کے پاس اور معافی اور روزی عزت کی1
1 " بدر " میں جو مال غنیمت ہاتھ آیا اس کے متعلق صحابہ میں نزاع تھی۔ نوجوان جو آگے بڑھ کر لڑے تھے وہ کل مال غنیمت کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ پرانے لوگ نوجوانوں کی پشت پر تھے، کا یہ کہنا تھا کہ ہمارے سہارا لگانے سے فتح ہوئی۔ لہذا غنیمت ہم کو ملنی چاہیے۔ ایک جماعت جو نبی اکرم ﷺ کی حفاظت کرتی رہی تھی وہ اپنے کو اس مال کا مستحق سمجھتی تھی۔ ان آیات میں بتلا دیا کہ فتح صرف اللہ کی مدد سے ہے کسی کا سہارا اور زور پیش نہیں جاتا سو مال کا مالک خدا ہے پیغمبر اس کے نائب ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی معرفت حکم دے، اسی کے موافق غنیمت تقسیم ہونی چاہیے (اس حکم کی تفصیل آگے آئے گی) پکے مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ ہر معاملہ میں خدا سے ڈریں۔ آپس میں صلح و آشتی سے رہیں، ذرا ذرا سی بات پر جھگڑے نہ ڈالیں، اپنی آراء و جذبات سے قطع نظر کر کے محض خدا اور رسول کا حکم مانیں، جب خدا کا نام درمیان میں آجائے ہیبت و خوف سے کانپ اٹھیں، آیات و احکام الٰہی سن کر ان کا ایمان و یقین زیادہ مضبوط ہوتا رہے۔ اس قدر مضبوط و قوی ہوجائے کہ ہر معاملہ میں ان کا اصلی بھروسہ اور اعتماد بجز خدا کے کسی پر باقی نہ رہے۔ اس کے سامنے سر عبودیت جھکائیں، اسی کے نام پر مال و دولت خرچ کریں۔ غرض عقیدہ، خلق، عمل اور مال ہر چیز سے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں رہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو سچا اور پکا ایماندار کہا جاسکتا ہے جو خدا کے یہاں اپنے اپنے درجہ کے موافق بڑے بڑے مقامات و مراتب قرب پر فائز ہوں گے۔ جنہیں معمولی کوتاہیوں سے درگزر کر کے عزت کی روزی سے سرفراز کیا جائے گا۔ رزقنا اللہ منہ بفضلہ ومنہ۔
Top