Tafseer-e-Usmani - Al-Anfaal : 53
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ لَمْ يَكُ : نہیں ہے مُغَيِّرًا : بدلنے والا نِّعْمَةً : کوئی نعمت اَنْعَمَهَا : اسے دی عَلٰي قَوْمٍ : کسی قوم کو حَتّٰي : جب تک يُغَيِّرُوْا : وہ بدلیں مَا : جو بِاَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ ہرگز بدلنے والا نہیں اس نعمت کو جو دی تھی اس نے کسی قوم کو جب تک وہی نہ بدل ڈالیں اپنے جیوں کی بات، اور یہ کہ اللہ سننے والا جاننے والا ہے5
5 یعنی جب لوگ اپنی بےاعتدالی اور غلط کاری سے نیکی کے فطری قویٰ اور استعداد کو بدل ڈالتے ہیں اور خدا کی بخشی ہوئی داخلی یا خارجی نعمتوں کو اس کے بتلائے ہوئے کام میں ٹھیک موقع پر خرچ نہیں کرتے بلکہ الٹے اس کی مخالفت میں صرف کرنے لگتے ہیں تو حق تعالیٰ اپنی نعمتیں ان سے چھین لیتا ہے اور شان انعام کو انتقام سے بدل دیتا ہے۔ وہ بندوں کی تمام باتوں کو سنتا اور تمام احوال کو جانتا ہے کوئی چیز اس سے پردہ میں نہیں۔ لہذا جس سے جو معاملہ کرے گا نہایت ٹھیک اور برمحل ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " نیت اور اعتقاد جب تک نہ بدلے تو اللہ کی بخشی ہوئی نعمت چھینی نہیں جاتی۔ " گویا " مَابِاَنْفُسِہِمْ " سے خاص نیت اور اعتقاد مراد لیا ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top