Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 101
وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ١ۛؕ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ١ؔۛ۫ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ١۫ لَا تَعْلَمُهُمْ١ؕ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ١ؕ سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍۚ
وَمِمَّنْ : اور ان میں جو حَوْلَكُمْ : تمہارے ارد گرد مِّنَ : سے۔ بعض الْاَعْرَابِ : دیہاتی مُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَمِنْ : اور سے۔ بعض اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ : مدینہ والے مَرَدُوْا : اڑے ہوئے ہیں عَلَي : پر النِّفَاقِ : نفاق لَا تَعْلَمُھُمْ : تم نہیں جانتے ان کو نَحْنُ : ہم نَعْلَمُھُمْ : جانتے ہیں انہیں سَنُعَذِّبُھُمْ : جلد ہم انہیں عذاب دینگے مَّرَّتَيْنِ : دو بار ثُمَّ : پھر يُرَدُّوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے اِلٰى : طرف عَذَابٍ : عذاب عَظِيْمٍ : عظیم
اور بعضے تمہارے گرد کے گنوار منافق ہیں اور بعضے لوگ مدینہ والے اڑ رہے ہیں نفاق پر تو ان کو نہیں جانتا ہم کو وہ معلوم ہیں3 ان کو ہم عذاب دیں گے دوبارہ پھر وہ لوٹائے جائیں گے بڑے عذاب کی طرف4
3 پہلے سے دیہاتی عربوں کا ذکر چلا آرہا تھا۔ درمیان میں اعراب مومنین کے تذکرہ سے مہاجرین و انصار کی طرف کلام منتقل ہوگیا اب اس آیت میں خاص " مدینہ " اور اس کے آس پاس رہنے والوں کا بیان ہے یعنی بعض اہل مدینہ اور گردو پیش کے رہنے والے نفاق کے خوگر ہوچکے اور اسی پر اڑے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ نفاق اس قدر عریق و عمیق ہے کہ ان کے قرب مکانی اور نبی کریم ﷺ کی کمال فطانت و فراست کے باوجود آپ بھی بالتعیین اور قطعی طور پر محض علامات و قرائن سے ان کے نفاق پر مطلع نہیں ہو سکے ان کا ٹھیک ٹھیک تعین صرف خدا کے علم میں ہے۔ جس طرح عام منافقین کا پتہ چہرہ لب و لہجہ اور بات چیت سے لگ جاتا تھا (وَلَوْ نَشَاۗءُ لَاَرَيْنٰكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيْمٰهُمْ ۭ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ ) 47 ۔ محمد :30) ان کا نفاق اتنا گہرا ہے کہ اس قسم کی ظاہری علامات ان کا پردہ فاش نہیں کرتیں۔ 4 بڑا عذاب دوزخ کا ہے۔ (اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ) 4 ۔ النسآء :145) اس سے قبل کم ازکم دو بار ضرور عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ ایک عذاب قبر اور دوسرا وہ عذاب جو اس دنیاوی زندگی میں پہنچ کر رہے گا۔ مثلاً ابن عباس کی ایک روایت کے موافق حضور ﷺ نے جمعہ کے روز منبر پر کھڑے ہو کر تقریباً چھتیس آدمیوں کو نام بنام پکار کر فرمایا۔ " اُخرج فانک منافق۔ " یعنی تو منافق ہے مسجد سے نکل جا۔ یہ رسوائی ایک قسم عذاب کی تھی۔ یا پہلے اس سورت میں گزرا کہ ان کے اموال و اولاد کو حق تعالیٰ نے ان کے حق میں عذاب بنادیا۔ (فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ :55) یا ان میں کے بعض بھوک وغیرہ آفات ارضی و سماوی میں مبتلا ہو کر ذلت کی موت مرے یا اسلام کی ترقی و عروج کو دیکھ کر غیظ کھانا اور دانت پیسنا، یہ بھی ان کے حق میں سوہان روح تھا۔ میرے نزدیک یہ سب قسم کے عذاب " مَّرَّتَيْنِ " کے احاطہ میں داخل ہیں۔ اور دو کا عدد یا تو مطلق تعدد کے لیے ہے جیسے " ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ " میں اور یا دو بار سے مراد تنوعی اثنینیت ہے۔ یعنی " عذاب قبر ' اور " عذاب قبل الموت "۔ واللہ اعلم۔
Top