Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 15
وَ یُذْهِبْ غَیْظَ قُلُوْبِهِمْ١ؕ وَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَيُذْهِبْ : اور دور کردے غَيْظَ : غصہ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل (جمع) وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي : اور اللہ توبہ قبول کرتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : علم والا حَكِيْمٌ : حکمت والا ہے
اور نکالے ان کے دل کی جلن اور اللہ توبہ نصیب کرے گا جس کو چاہے گا3 اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے4
3 اس آیت میں مشروعیت " جہاد " کی اصل حکمت پر متنبہ فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں اقوام ماضیہ کے جو قصے بیان فرمائے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی قوم کفر و شرارت اور انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب و عداوت میں حد سے بڑھ جاتی تھی تو قدرت کی طرف سے کوئی تباہ کن آسمانی عذاب ان پر نازل کیا جاتا تھا جس سے ان کے سارے مظالم اور کفریات کا دفعۃً خاتمہ ہوجاتا تھا۔ (فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا ۚوَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَان اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت :40) کوئی شبہ نہیں کہ عذاب کی یہ اقسام بہت سخت مہلک اور آئندہ نسلوں کے لیے عبرتناک تھیں لیکن ان صورتوں میں معذبین کو دنیا میں رہ کر اپنی ذلت و رسوائی کا نظارہ نہیں کرنا پڑتا تھا اور نہ آئندہ کے لیے توبہ و رجوع کا کوئی امکان باقی رہتا تھا۔ مشروعیت جہاد کی اصلی غرض وغایت یہ ہے کہ مکذبین و متعنتین کو حق تعالیٰ بجائے بلاواسطہ عذاب دینے کے لیے اپنے مخلص وفادار بندوں کے ہاتھ سے سزا دلوائے۔ سزا دہی کی اس صورت میں مجرمین کی رسوائی اور مخلصین کی قدر افزائی زیادہ ہے۔ وفادار بندوں کا نصرت و غلبہ اعلانیہ ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے دل یہ دیکھ کر ٹھنڈے ہوتے ہیں کہ جو لوگ کل تک انہیں حقیر و ناتواں سمجھ کر ظلم و ستم اور استہزاء و تمسخر کا تختہ مشق بنائے ہوئے تھے، آج خدا کی تائید و رحمت سے انہی کے رحم و کرم یا عدل و انصاف پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ کفر و باطل کی شوکت و نمائش کو دیکھ کر جو اہل حق گھٹتے رہتے تھے یا جو ضعیف و مظلوم مسلمان کفار کے مظالم کا انتقام نہ لے سکنے کی وجہ سے دل ہی دل میں غیظ کھا کر چپ ہو رہتے تھے جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ سے ان کے قلوب تسکین پاتے تھے اور آخری بات یہ ہے کہ خود مجرمین کے حق میں بھی سزا دہی کا یہ طریقہ نسبتہ زیادہ نافع ہے۔ کیونکہ سزا پانے کے بعد بھی رجوع و توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ حالات سے عبرت حاصل کر کے بہت سے مجرموں کو توبہ نصیب ہوجائے، چناچہ حضور پرنور ﷺ کے زمانہ میں ایسا ہی ہوا کہ تھوڑے دنوں میں سارا عرب صدق دل سے دین الٰہی کا حلقہ بگوش بن گیا۔ 4 یعنی ہر ایک کی حالت کو جان کر حکمت کا معاملہ کرتا ہے اور ہر زمانہ میں اسکے مناسب احکام بھیجتا ہے۔
Top