Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 18
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓئِكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ
اِنَّمَا : صرف يَعْمُرُ : وہ آباد کرتا ہے مَسٰجِدَ اللّٰهِ : اللہ کی مسجدیں مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لایا بِاللّٰهِ وَ : اللہ پر الْيَوْمِ الْاٰخِرِ : آخرت کا دن وَ : اور اَقَامَ الصَّلٰوةَ : اس نے نماز قائم کی وَ : اور اٰتَى الزَّكٰوةَ : زکوۃ ادا کی وَ : اور لَمْ يَخْشَ : اور نہ ڈرا اِلَّا : سوائے اللّٰهَ : اللہ فَعَسٰٓى : سو امید ہے اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ اَنْ : کہ يَّكُوْنُوْا : ہوں مِنَ : سے الْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والے
وہی آباد کرتا ہے مسجدیں اللہ کی جو یقین لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور قائم کیا نماز کو اور دیتا رہا زکوٰۃ اور نہ ڈرا سوائے اللہ کے کسی سے، سو امیدوار ہیں وہ لوگ کہ ہو ویں ہدایت والوں میں1
1 پہلے فرمایا تھا کہ مسلمان بدون امتحان کے یونہی نہیں چھوڑے جاسکتے، بلکہ بڑے بڑے عزائم اعمال (مثلاً جہاد وغیرہ) میں ان کی ثابت قدمی دیکھی جائے گی اور یہ کہ تمام دنیا کے تعلقات پر کس طرح خدا اور رسول کی جانب کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس رکوع میں یہ بتلایا کہ خدا کی مساجد (عبادت گاہیں) حقیقتہ ایسے ہی اولوالعزم مسلمانوں کے دم سے آباد رہ سکتی ہیں۔ مساجد کی حقیقی آبادی یہ ہے کہ ان میں خدائے واحد کی عبادت اس کی شان کے لائق ہو۔ " ذکر اللہ " کرنے والے کثرت سے موجود ہوں جو بےروک ٹوک خدا کو یاد کریں۔ لغویات و خرافات سے ان پاک مقامات کو محفوظ رکھا جائے۔ یہ مقصد کفار و مشرکین سے کب حاصل ہوسکتا ہے ؟ دیکھئے مشرکین مکہ بڑے فخر سے اپنے کو " مسجد حرام " کا متولی اور خادم کہتے تھے۔ مگر ان کی بڑی خدمت گزاری یہ تھی کہ پتھر کی سینکڑوں مورتیاں کعبہ میں رکھ چھوڑی تھی ان ہی کی نذر و نیاز کرتے اور منتیں مانتے تھے۔ بہت سے لوگ ننگے طواف کرتے تھے، ذکر اللہ کی جگہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے اور خدائے واحد کے سچے پرستاروں کو وہاں تک پہنچنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ لے دے کر ان کی بڑی عبادت یہ تھی کہ حاجیوں کے لیے پانی کی سبیل لگا دی یا حرم شریف میں چراغ جلا دیا۔ یا کعبہ پر غلاف چڑھایا، یا کبھی ضرورت ہوئی تو شکست و ریخت کی مرمت کرا دی، مگر یہ اعمال محض بےجان اور بےروح تھے۔ کیونکہ مشرک کو جب خدا کی صحیح معرفت حاصل نہیں تو کسی عمل میں اس کا قبلہ توجہ اور مرکز اخلاص خدائے وحدہ لا شریک لہ ' کی ذات منبع الکمالات نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے کافر کا کوئی عمل خدا کے نزدیک زندہ اور معتد بہ عمل نہیں ہے۔ (اسی کو حبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ سے تعبیر فرمایا) الغرض کفار و مشرکین جو اپنے حال و قال سے اپنے کفر و شرک پر ہر وقت شہادت دیتے رہتے ہیں، اس لائق نہیں کہ ان سے مساجد اللہ خصوصاً مسجد حرام کی حقیقی تعمیر (آبادی) ہو سکے۔ یہ کام صرف ان لوگوں کا ہے جو دل سے خدائے واحد اور آخری دن پر ایمان لا چکے ہیں، جوارح سے نمازوں کی اقامت میں مشغول رہتے ہیں۔ اموال میں سے باقاعدہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ اسی لیے مساجد کی صیانت و تطہیر کی خاطر جہاد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایسے مومنین جو دل، زبان، ہاتھ پاؤں، مال و دولت، ہر چیز سے خدا کے مطیع و فرمانبردار ہیں ان کا فرض منصبی ہے کہ مساجد کو آباد رکھیں اور تعمیر مساجد کے جھوٹے دعوے رکھنے والے مشرکین کو خواہ اہل قرابت ہی کیوں نہ ہوں وہاں سے نکال باہر کریں کیونکہ ان کے وجود سے مساجد اللہ کی آبادی نہیں بربادی ہے۔
Top