Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 45
اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ فَهُمْ فِیْ رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ
اِنَّمَا : وہی صرف يَسْتَاْذِنُكَ : آپ سے رخصت مانگتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَارْتَابَتْ : اور شک میں پڑے ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ فِيْ : میں رَيْبِهِمْ : اپنے شک يَتَرَدَّدُوْنَ : بھٹک رہے ہیں
رخصت وہی مانگتے ہیں تجھ سے جو نہیں ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور شک میں پڑے ہیں دل ان کے سو وہ اپنے شک ہی میں بھٹک رہے ہیں1
1 یعنی جن کے دلوں میں ایمان وتقویٰ کا نور ہے، ان کی یہ شان نہیں کہ جہاد سے الگ رہنے کی اس طرح بڑھ بڑھ کر اجازت حاصل کریں۔ ان کا حال تو وہ ہے جو اس پارہ کے آخر میں بیان ہوا ہے۔ (تَوَلَّوْا وَّاَعْيُنُهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا يَجِدُوْا مَا يُنْفِقُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ :92) یعنی بےسروسامانی وغیرہ کے عذر سے اگر " جہاد فی سبیل اللہ " کے شرف سے محروم رہ جائیں تو اس فضل کے فوت ہوجانے پر ان کی آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں۔ بےحیا بن کر جہاد سے علیحدہ رہنے کی اجازت لینا انہی کا شیوہ ہے جن کو خدا کے وعدوں پر یقین نہیں نہ آخرت کی زندگی کو سمجھتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے اسلام و مسلمین کے غالب و منصور ہونے کی جو خبریں دی ہیں ان کے متعلق ہمیشہ شک و شبہ میں گرفتار رہتے ہیں۔
Top