Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 87
رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَ طُبِعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَفْقَهُوْنَ
رَضُوْا : وہ راضی ہوئے بِاَنْ : کہ وہ يَّكُوْنُوْا : ہوجائیں مَعَ : ساتھ الْخَوَالِفِ : پیچھے رہ جانیوالی عورتیں وَطُبِعَ : اور مہر لگ گئی عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَفْقَهُوْنَ : سمجھتے نہیں
خوش ہوئے کہ رہ جائیں پیچھے رہنے والی عورتوں کے ساتھ6  اور مہر کردی گئی ان کے دل پر سو وہ نہیں سمجھتے7
6  یعنی قرآن کی کسی سورت میں جب تنبیہ کی جاتی ہے کہ پوری طرح خلوص و پختگی سے ایمان لاؤ، جس کا بڑا اثر یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ پیغمبر ﷺ کے ساتھ ہو کر خدا کے راستہ میں جہاد کریں۔ تو یہ منافقین جان چرانے لگتے ہیں اور ان میں کے استطاعت و مقدور والے بھی جھوٹے عذر تراش کر اجازت طلب کرنے آتے ہیں کہ حضرت ! ہمیں تو یہیں مدینہ میں رہنے دیجئے۔ گویا کمال بےغیرتی اور نامردی سے اس پر راضی ہیں کہ لڑائی یا خطرہ کا نام سنتے ہی خانہ نشین عورتوں کے ساتھ گھروں میں گھس کر بیٹھ رہیں۔ ہاں جس وقت جنگ وغیرہ کا خطرہ نہ رہے اور امن و اطمینان کا زمانہ ہو تو باتیں بنانے اور قینچی کی طرح زبان چلانے میں سب سے پیش پیش ہوتے ہیں ( فَاِذَا جَاۗءَ الْخَوْفُ رَاَيْتَهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ تَدُوْرُ اَعْيُنُهُمْ كَالَّذِيْ يُغْشٰى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۚ فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِـنَةٍ حِدَادٍ ) 33 ۔ الاحزاب :19) 7 یعنی کذب و نفاق نکول عن الجہاد، اور تخلف عن الرسول ﷺ کی شامت سے ان کے دلوں پر مہر کردی گئی کہ اب موٹے موٹے عیب بھی ان کو عیب نظر نہیں آتے اور انتہائی بےغیرتی و بزدلی پر بجائے شرمانے کے نازاں وفرحاں ہوتے ہیں۔
Top