Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 8
كَیْفَ وَ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْكُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً١ؕ یُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ تَاْبٰى قُلُوْبُهُمْ١ۚ وَ اَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَۚ
كَيْفَ : کیسے وَاِنْ : اور اگر يَّظْهَرُوْا : وہ غالب آجائیں عَلَيْكُمْ : تم پر لَا يَرْقُبُوْا : نہ لحاظ کریں فِيْكُمْ : تمہاری اِلًّا : قرابت وَّ : اور لَا ذِمَّةً : نہ عہد يُرْضُوْنَكُمْ : وہ تمہیں راضی کردیتے ہیں بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ (جمع) سے وَتَاْبٰي : لیکن نہیں مانتے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر فٰسِقُوْنَ : نافرمان
کیونکر رہے صلح اور اگر وہ تم پر قابو پائیں تو نہ لحاظ کریں تمہاری قرابت کا اور نہ عہد کا تم کو راضی کردیتے ہیں اپنے منہ کی بات سے اور ان کے دل نہیں مانتے اور اکثر ان میں بدعہد ہیں2
2 پچھلی آیات میں جو براءۃ کا اعلان کیا گیا تھا، یہاں اس کی حکمت بیان فرماتے ہیں۔ یعنی ان مشرکین عرب سے کیا عہد قائم رہ سکتا ہے اور آئندہ کیا صلح ہوسکتی ہے جن کا حال تم مسلمانوں کے ساتھ یہ ہے کہ اگر کسی وقت ذرا قابو تم پر حاصل کرلیں تو ستانے اور نقصان پہنچانے میں نہ قرابت کا مطلق لحاظ کریں اور نہ قول وقرار کا۔ چونکہ اتفاق سے تم پر غلبہ اور قابو حاصل نہیں ہے، اس لیے محض زبانی عہد و پیمان کر کے تم کو خوش رکھنا چاہتے ہیں، ورنہ ان کے دل ایک منٹ کے لیے بھی اس عہد پر راضی نہیں۔ ہر وقت عہد شکنی کا موقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ ان میں اکثر لوگ غدار اور بدعہد ہیں اگر کوئی اکا دکا وفائے عہد کا خیال بھی کرتا ہے تو کثرت کے مقابلہ میں ان کی کچھ پیش نہیں جاتی۔ بہرحال ایسی دغاباز بدعہد قوم سے خدا اور رسول کا کیا عہد ہوسکتا ہے۔ البتہ جن قبائل سے تم بالخصوص مسجد حرام کے پاس معاہدہ کرچکے ہو، سو تم ابتداء کر کے نہ توڑو۔ جب تک وہ وفاداری کے راستہ پر سیدھے چلیں تم بھی ان سے سیدھے رہو اور بڑی احتیاط رکھو کوئی حقیر سے حقیر بات ایسی نہ ہونے پائے جس سے تمہارا دامن عہد شکنی کی گندگی سے داغدار ہو۔ خدا کو وہ ہی لوگ محبوب ہیں جو پوری احتیاط کرتے ہیں۔ چناچہ بنو کنانہ وغیرہ نے مسلمانوں سے بد عہدی نہ کی تھی۔ مسلمانوں نے نہایت دیانت داری اور احتیاط کے ساتھ اپنا عہد پور کیا۔ اعلان براءۃ کے وقت ان کے معاہدہ کی میعاد منقضی ہونے میں نو مہینے باقی تھے۔ ان میں معاہدہ کی کامل پابندی کی گئی۔
Top