Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 22
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَنْكِحُوْا : نکاح کرو مَا نَكَحَ : جس سے نکاح کیا اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا قَدْ سَلَفَ : جو گزر چکا اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَاحِشَةً : بےحیائی وَّمَقْتًا : اور غضب کی بات وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ (طریقہ)
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرنا مگر (جاہلیت میں جو ہوچکا سو ہوچکا) یہ نہایت بےحیائی اور (خدا کی) ناخو شی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا۔
ان عورتوں کا بیان جن سے نکاح حرام ہے قول باری ہے۔ (ولاتنکحوامانکح اباء کم من النساء الا ماقد سلف، اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہوں ان سے ہرگز نکاح نہ کرومگر پہلے جو ہوچکا سوہوچکا۔ ) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ہمیں ثعلب کے غلام ابوعمرونے بتایا ہے کہ ہمیں ثعلب سے اور انہیں کوفہ کے اہل لغت سے نیز مبرد کو بصرہ کے اہل لغت سے جو بات معلوم ہوئی ہے کہ لغت میں نکاح کے اصل معنی دوچیزوں کواکٹھا کردینے کے ہیں۔ عربوں کا قول ہے۔ انکحنا الفرافسنری، (ہم نے جنگلی گدھے اور اس کی مادہ کو اکٹھا کردیا ہے تم دیکھ لوگے کہ کیا بنتا ہے) ۔ یہ ایک ضرب المثل ہے اور اس وقت کہاجاتا ہے جب کسی معاملہ میں لوگ باہم مشورہ کریں اور اس پر اتفاق کرلیں اور پھر دیکھیں کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ لغوی طورپرنکاح کا اسم دوچیزوں کو جمع کرنے کے معنی کے لیئے وضع کیا گیا تھا پھر ہم نے یہ دیکھا کہ عرب کے لوگ نفس وطی پر جو عقد کے بغیر ہو نکاح کے اسم کا اطلاق کرنے لگے جیسا کہ اعشی کا شع رہے۔ ؎ ومنکوحۃ غیر ممھورۃ واخری لیقال لھا فادھا ایک قیدی عورت جس کے ساتھ عقد اورمہر کے بغیر ہم بستری کی گئی ۔ اس کے علاوہ ایک اور عورت ہے جسے فادہہ کے نام سے پکاراجاتا ہے۔ ایک اور شاعرکاشع رہے ؎ ومن ایم قدانکح تھا رماحنا واخری علی عم وحال تلھف ایک قیدی بیوہ عورت جس کے ساتھ ہمارے نیزوں نے نکاح کیا اور ایک دوسری عورت جو اپنے چچا اور ماموں کو یادکرکے روتی ہے۔ ایک اور شاعرنا بغہ ذبیانی کہتا ہے۔ ؎ فنکحن ابکاراوھن بامۃ اعجلنھن مظنۃ الاحذار ان قیدی عورتوں کے ساتھ ان کی دوشیز گی کی حالت میں ہمبستری کی گئی اور یہ آرام وراحت میں تھیں اور ان کے ختنہ ہونے کے وقت تک کا بھی انتظار نہیں کیا گیا۔ نکاح سے شاعر کی مراد وطی یعنی ہمبستری ہے وطی کے معنی پر نکاح کے اسم کا اطلاق کسی کے نزدیک ممتنع نہیں ہے۔ یہ اسم نفس عقد کو بھی شامل ہے ۔ چنانچہ قول باری ہے (اذانکحتم المؤمنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن، جب تم مومنات سے نکاح کرلو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو ) یہاں نکاح سے مراد عقد ہے وطی نہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (انا من نکاح ولست من سقاح) میرے والدین کے درمیان رشتہ ازواج عقدنکاح کی بناپراستوارہوا تھا، ناجائز تعلقات کی بناپر نہیں ۔ ) آپ کے اس ارشاد کی دومعنوں پر دلالت ہورہی ہے ایک تو یہ کہ نکاح کے اسم کا اطلاق عقدپر ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ اس کا بعض دفعہ عقد کے بغیر کی جانے والی ہمبستری پر بھی اسے محمول کیا جاتا ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ صرف (انا من نکاح) کے فقرے پر اکتفا کرتے کیونکہ لفظ سفاح یعنی بدکاری کسی حالت میں بھی اسم نکاح کے مفہوم کو اپنے دائرے میں نہیں لیتا اس لیے لفظ نکاح کے ذکرکے بعد آپ کا قول (ولست من سفاح) اس پر دلالت کرتا ہے کہ نکاح کا لفظ دونوں باتوں کو شامل ہے۔ حضور ﷺ نے یہ واضح فرمادیا کہ آپ کی ولادت باسعادت عقدحلال کے نتیجے میں ہوئی اس نکاح یعنی ہمبستری کی بناپر نہیں ہوئی تھی جو سفاح یعنی بدکاری اور زناکہلاتی ہے۔ ہماری مذکورہ بالا وضاحت سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ نکاح کا اسم عقد اوروطی دونوں پر محمول کیا جاتا ہے نیز لغت کے لحاظ اس کے مفہوم ومعنی کا بھی ثبوت ہوگیا اور یہ معلوم ہوگیا کہ یہ دوچیزوں کواکٹھا کردینے کا نام ہے اور اکٹھا کردینے کا مفہوم ہمبستری کی صورت میں ادا ہوتا ہے، عقد کی صورت میں نہیں اس لیے کہ عقد کی وجہ سے اکٹھا ہونا نہیں ہوتا کیونکہ عقدتومرد اور عورت دونوں کی طرف سے ایک زبانی بات ہوتی ہے جو حقیقت میں اکٹھا کرنے کے مفہوم کی مقتضی نہیں ہوتی۔ ان امور کی روشنی میں یہ بات سامنے آگئی کہ نکاح کے اسم کے حقیقی معنی ہمبستری کے ہیں اور مجازا اس کا اطلاق عقدپر بھی ہوتا ہے۔ عقد کو نکاح کا نام اس لیے دیا گیا کہ یہ ہم بستری تک رسائی کا ذریعہ اور اس کا سبب بنتا ہے۔ یہ مجاز کی ایک صورت ہے کہ ایک چیزپر اس کے غیر کے نام کا اطلاق کیا جائے جبکہ وہ چیز اس غیر کے لیے سبب اور ذریعہ بنتی ہویا اس چیزکامفہوم اس غیر کے مفہوم کے بالکل قریب ہو۔ مثلابچے کی پیدائش کے وقت اس کے سرپر اگے ہوئے بالوں کو عقیقہ کہاجاتا ہے لیکن ان بالوں کو اتروانے کے موقعہ پر ذبح کی جانے والی کو بھی عقیقہ کا نام دیاجاتا ہے یا لفظ راویہ اس اونٹ کا نام ہے۔ جس پر پانی کی مشک لدی ہوپھرپانی کی مشک کو راویہ کا نام دیاجاتا ہے اس لیے کہ یہ مشک اونٹ سے متصل اور اس سے قریب رکھتی ہے۔ ابوالجنم کا شع رہے۔ ؎ تمشی من الردۃ مشی الحفل مثی الروایایالمزاد الاثقل یہ اونٹنی تھنوں میں ورم کی وجہ سے اس طرح آہستہ آہستہ چل رہی ہے جس طرح دودھ بھرے بھرے تھنوں والی اونٹنیاں چلتی ہیں یا جس طرح پانی کی بوجھل مشکیں اٹھانے والے اونٹ چلتے ہیں۔ اسی طرح غائط زمین کے اس حصے کو کہتے ہیں جو ذرابست ہو نیز انسان کے برازپر بھی اس اسم کا اطلاق ہوتا ہے۔ کیونکہ لوگ قضائے حاجت کے لیے نشیبی زمین کی طرف چلے جاتے تھے۔ اس کی بہت سی نظریں ہیں۔ ٹھیک اسی طرح لغت میں اصل وضع کے لحاظ سے نکاح کے اسم کا اطلاق وطی پر ہوتا ہے۔ لیکن عقدپرمجازامحمول ہوتا ہے اس لیے کہ عقدہمبستری تک رسائی کا ذریعہ اور اس کا سبب ہوتا ہے ۔ نکاح کو مجازا عقدکانام دینے پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ خرید و فروخت اور ہبہ کی تمام صورتوں میں جو عقود ہوتے ہیں ان میں سے کسی پر بھی نکاح کے اسم کا اطلاق نہیں ہوتا اگرچہ اس کے ذریعے لونڈی کے ساتھ ہم بستری کی اباحت ہوجاتی ہے۔ س کی وجہ یہ ہے کہ بیع وشراء اور ہبہ کے یہ عقودوطی کی اباحت کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں اس لیے کہ یہ عقودان عورتوں کے سلسلے میں درست ہوتے ہیں جن سے ہم بستری کی مستقل ممانعت ہے مثلا رضاعی بہن یا حقیقی بہن یاساس اور اسی طرح کی دیگر خواتین۔ جبکہ اس عقد کو نکاح کا نام دیاجاتا ہے جو وطی کی اباحت کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ جس عورت کے ساتھ ہم بستری حلال نہیں ہوگی اس کے ساتھ نکاح بھی حلال نہیں ہوگا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نکاح کا اسم وطی کے معنی کے لیے حقیقت اور عقد کے معنی کے لیے مجاز ہے ہماری اس وضاحت کے بموجب قول باری (ولاتنکحوامانکح اباء کم من النساء) کو وطی پر محمول کرنا واجب ہے اس لیے اس کا مقتضی یہ ہے کہ جن عورتوں سے ایک شخص کے باپ نے وطی کی ہو وہ عورتیں اس شخص پر حرام ہوں گی کیونکہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ لفظ نکاح وطی کا اسم ہے تو یہ صرف وطی کی مباح صورتوں کے ساتھ مخصوص نہیں رہابل کہ ممنوع صورتوں کو بھی شامل ہوگیا جس طرح لفظ ضرب یا قتل یاوطی ہے۔ کہ جب ان کا اطلاق ہوتا ہے تو اس سے صرف ان کی مباح صورتیں مراد ہوتیں بلکہ مباح اور ممنوع دونوں صورتوں پر انہیں محمول کیا جاتا ہے۔ الایہ کہ کسی خاص صورت کی تخصیص کے لیے کوئی دلالت قائم ہوجائے۔ ابوالحسن فرمایا کرتے تھے کہ قول باری (مانکح اباء کم) سے مراد وطی ہے عقد نہیں اس لیے کہ لفظ نکاح وطی کیلیے حقیقت ہے۔ اس سے عقدمراد نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک لفظ کا بیک وقت حقیقی اور مجازی دونوں معنوں پر محمول ہونامحال ہے۔ ہم نے اس آیت کے سوا کسی اور دلیل کی بنیادپرصرف عقد کی صورت میں بھی باپ کی منکوحہ عورت سے نکاح کی حرمت کا حکم لگایا ہے یعنی اگر باپ کسی عورت سے صرف عقد کرلیتا ہے ہمبستری نہیں کرتاتو ایسی عورت بیٹے کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔ زناکی صورت میں ہمبستری کی وجہ سے ماں اور بیٹی کی تحریم کے ایجاب کے متعلق اہل علم میں اختلاف رائے ہے۔ سعیدبن عروبہ نے قتادہ سے، انہوں نے حسن سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین ؓ سے اس شخص کے متعلق روایت کی ہے جس نے اپنی ساس کے ساتھ منہ کالا کرلیاہو کہ اس کے نتیجے اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔ حسن، قتادہ ، نیز سعیدبن المسیب ، سلیمان بن یسار، سالم بن عبداللہ مجاہد، عطاء بن ابی رباح، ابراہیم نخعی، عامربن ابی ربیعہ ، حماد، امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف ، امام محمد، زفر، سفیان ثوری اور امام اور زاعی کا بھی یہی قول ہے۔ ان حضرات نے اس میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے کہ خواہ ساس کے ساتھ اس نے بدکاری نکاح سے پہلے کی ہویا بعد میں۔ دونوں صورتوں میں اس عورت کی بیٹی زانی پر حرام ہوجاتی ہے۔ اور ایجاب تحریم لازم ہوجاتا ہے عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس شخص کے متعلق نقل کیا ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ دخول یعنی ہمبستری کے بعد اپنی ساس کے ساتھ منہ کالاکرتا ہے کہ اس نے دوحرام کاموں یعنی زنا اور ساس کے ساتھ زناکا ارتکاب کیا، تاہم اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ حرام کام کسی حلال کو حرام کرسکتا۔ اوزاعی نے کہا ہے کہ عطاء بن ابی رباح حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول کا مصداق اس شخص کو ٹھہراتے تھے جو کسی عورت کے ساتھ منہ کالا کرلے لیکن اس کے اس فعل قبیح کی بناپروہ عورت اس پر حرام نہیں ہوتی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ عطاء نے حضرت ابن عباس ؓ کا جویہ قول نقل کیا ہے کہ ماں کے ساتھ زنا کی وجہ سے بیٹی حرام نہیں ہوتی، خود عطاء کے نزدیک یہ بات ایسی نہیں تھی اس لیے کہ اگر عطاء کے نزدیک یہ بات اسی طرح ثابت ہوتی توا نہیں حضرت ابن عباس ؓ کے قول (لایحرم الحرام الحلال، کی تاویل کی ضرورت پیش نہ آتی۔ زہری، ربیعہ ، امام مالک، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ جس عورت کے ساتھ کوئی زنا کرے توزانی پر نہ اس کی ماں حرام ہوتی ہے اور نہ اس کی ماں حرام ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی بیٹی۔ عثمان البتی نے اس شخص کے متعلق جس نے اپنی ساس کے ساتھ بدکاری کی ہو کہا ہے کہ کوئی حرام کام کسی حلال چیز کو حرام نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر کسی نے کسی کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے بیٹی کی ماں کے ساتھ بدکاری کا ارتکاب کرلیاہویاماں کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے بیٹی کے ساتھ زنا کرچکا ہو تو پہلی صورت میں بیٹی اور دوسری صورت میں ماں اس پر حرام ہوجائے گی۔ اس طرح عثمان البتی نے نکاح سے قبل اور نکاح کے بعدزنا کے ارتکاب کے درمیان فرق کیا ہے۔ فقہاء کے درمیان اس شخص کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے جو کسی دوسرے شخص کے ساتھ لواطت کا ارتکاب کرتا ہے کہ آیا اس مفعول کی ماں اور بیٹی فاعل پر حرام ہوجائیں گی۔ یا نہیں ؟ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس پر حرام نہیں ہوں گی۔ عبداللہ بن الحسین کا قول ہے کہ یہ صورت بھی تحریم کے حکم کے لحاظ سے مذکورہ بالاصورت کی طرح ہے یعنی زنا کاری کی وجہ سے جس طرح مرد پر کچھ عورتیں حرام ہوجائیں گی اسی طرح لواطت کی بناپرعورتوں پر مرد حرام ہوجائیں گے۔ ابراہیم بن اسحق نے روایت کی ہے کہ میں نے سفیان ثوری سے ایک شخص کے متعلق مسئلہ دریافت کیا کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ لواطت کا ارتکاب کرتا ہے آیاوہ اس لڑکے کی ماں سے نکاح کرسکتا ہے توسفیان ثوری نے نفی میں جواب دیا۔ حسن بن صالح کسی ایسی عورت سے نکاح کو مکروہ سمجھتے تھے جس کے بیٹے کے ساتھ نکاح کرنے والے لواطت کا ارتکاب کیا ہو۔ اوزاعی نے ایسے دولڑکوں کے متعلق کہا ہے جن میں سے ایک نے دوسرے کے ساتھ قبیح حرکت کا ارتکاب کیا ہو پھر مفعول کی شادی ہوجانے کے بعد اس کے گھرلڑ کی پیدا ہوجائے توفاعل کے لیے اس لڑکی کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ولاتنکحوامانکح اباؤ کم من النساء) نے اس عورت سے نکاح کی تحریم کو واجب کردیا ہے۔ جس کے ساتھ نکاح کرنے والے کے باپ نے ہمبستری کی ہو خواہ یہ ہمبستری زنا کی صورت میں ہوئی ہویا کسی اور صورت میں اس لیے کہ لفظ نکاح کا وطی کے معنی پر اطلاق حقیقت کے طورپر ہوتا ہے اس لیے اس لفظ کو اس معنی پر محمول کرنا واجب ہے۔ جب باپ کی ہمبستری کی صورت میں تحریم ثابت ہوگئی تو بیوی کی ماں یابیٹی کے ساتھ ہمبستری کی صورت میں بیوی کی تحریم کا وجوب بھی ثابت ہوگیا اس لیے کسی نے بھی ان دونوں صورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اس پر قرآن کی یہ آیت بھی دلالت کررہی ہے (وربائبکم اللاتی فی حجورکم من نساء کم اللاتی دخلتم بھن، اور تمھاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے، ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمھاراتعلق زن وشوہر ہوچکاہو۔ ) دخول دراصل وطی کادوسرانام ہے اور آیت میں مراد بھی یہی ہے، نیز دخول کا اسم نکاح کی بنیادپر ہونے والی ہمبستری کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ دوسری صورتوں کو بھی شامل ہے۔ ان تینوں باتون پر یہ چیزدلالت کررہی ہے کہ اگر کسی لڑکی کی ماں کے ساتھ ملک یمین کی بناپرہمبستری کرلیتا ہے تو آیت کے حکم کے بموجب وہ لڑکی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔ اگر اس نے اس کے ساتھ نکاح فاسد کی بنیاد پر ہمبستری کی ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دخول چونکہ ہمبستری کادوسرانام ہے اس لیے اس کے حکم کا تعلق صرف نکاح کی بنیاد پر ہونے والی ہم بستری کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اس کے سو اہم بستری کی دوسری صورتوں کے ساتھ بھی یہ متعلق ہے۔ عقلی طورپر اس مسئلے کا یہ پہلوقابل توجہ ہے کہ تحریم کو واجب کردینے کے سلسلے میں عقد کی بہ نسبت ہم بستری میں زیادہ تاکیدپائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ ہماری نظروں میں مباح ہم بستری کی جو بھی صورت آئی ہے وہ تحریم کی موجب نبی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے سامنے عقدصحیح کی ایک صورت ایسی بھی موجود جو موجب تحریم نہیں ہے۔ وہ یہ کہ اگر کوئی شخص کسی لڑکی کی ماں کے ساتھ صرف عقدنکاح کرلیتا ہے تو اس کی بناپروہ لڑکی اس پر حرام نہیں ہوتی۔ ہاں اگر ہم بستری کرلے تو پھر حرام ہوجاتی ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ہم بستری کا وجوب ایجاب تحریم کی علت ہے۔ ہمبستری کی صورت خواہ کیسی بھی کیوں نہ ہو، مباح ہو یا ممنوع، ہر صورت میں یہ تحریم کو واجب کردیتی ہے۔ اس لیے کہ وطی کا وجود ہی کافی ہے کیونکہ تحریم اس وطی صحیح کے مفہوم سے خارج نہیں کرسکتی۔ جب وطی مباح اور وطی ممنوع دونوں ہی اس مفہوم میں مشترک ہوگئے تواب ضروری ہوگیا کہ ہم بستری کی دونوں صورتین موجوب تحریم ہوں۔ نیز اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ شبہ یا ملک ہمیں کی بناء پر ہونے والی ہم بستری موجب تحریم ہے۔ حالانکہ اس میں نکاح کا وجود نہیں پایا گیا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ نفس ہم بستری موجوب تحریم ہے خواہ اسکی بنیادکچھ بھی کیوں نہ ہو۔ اس لیے یہ واجب قرارپایا کہ زنا کی بنیاد پر ہونے والی ہم بستری بھی موجب تحریم ہوکیون کہ اس کے اندر بھی وطی صحیح کا مفہوم موجود ہوتا ہے۔ اگریہ سوال اتھایاجائے کہ شبہ یا ملک یمین کی بنیاد پر ہونے والی ہمبستری اس لیے موجب تحریم ہے کہ اس کی بناپرنسب کا ثبوت ہوجاتا ہے جبکہ زنا کی بناپرنسب کا ثبوت نہیں ہوتا اس لیے زناکے ساتھ تحریم کے حکم کا تعلق نہیں ہونا چاہیئے۔ اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ اس حکم پر ثبوت نسب کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کم سن بچہ جو اپنی منکوحہ سے ہمبستری کے قابل نہیں ہوتا اگر اپنی بیوی سے کسی طرح جماع کرلے تو اس پر اس کی بیوی کی ماں اور بیٹی دونوں حرام ہوجائیں گی حالانکہ اس کے اس جماع سے ثبوت نسب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی عورت سے عقد نکاح کرلیتا ہے تو اس عقد کے ساتھ ہی نسب کے ثبوت کا تعلق ہوجاتا ہے خواہ ابھی ہم بستری نہ بھی ہوئی ہو۔ اسی لیے اگر کوئی عورت عقدنکاح کے چھ ماہ بعد اورشوہر کے ساتھ ہمبستری سے پہلے کوئی بچہ لے کر آجائے تو یہ بچہ شوہر کے ذمے پر جائے گا۔ جبکہ صرف عقد کی منیاد پر بیوی کی بیٹی شوہرپرحرام نہیں ہوگی۔ جب ہمیں ہمبستری کی ایک صورت ایسی نظرآگئی جو ثبوت نسب کی موجب تو نہیں لیکن تحریم کی موجب ہے اور ساتھ ہی عقد کی بھی ایسی صورت مل گئی جو ثبوت نسب کی موجب تو ہے لیکن تحریم کی موجب نہیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی تحریم میں ثبوت نسب کا کوئی دخل نہیں ہے۔ نیز اس میں اعتبار صرف ایک چیز کا ہوتا ہے اور وہ ہے ہم بستری اس کے سوا کسی اور چیز کا اعتبار نہیں ہوتا۔ نیز ہمارے اور معترضین کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگادے تو اس پر اس کی ماں اور بیٹی دونوں حرام ہوجائیں گی جبکہ ہاتھ لگانے کے عمل کو نسب کے ثبوت میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تحریم کا حکم نسب پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ ثبوت نسب کے ساتھ اور اس کے بغیر اس کا حکم ثابت ہوجاتا ہے۔ ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زنا کے بارے میں سخت رویے کا اس طرح مظاہرہ فرمایا کہ کسی صورت میں رجم کی سزاداجب کردی اور کسی صورت میں کوڑوں کی سزا۔ اس کے ساتھ جہنم میں ڈالے جانے کی وعید بھی سنائی نیز اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کے نسب کے الحاق کی بھی ممانعت کردی۔ یہ سارے اقدامات اس لیے گئے کہ زناکے جرم پر عائد ہونے والا حکم سخت سے سخت ہوجائے تو پھر زناکاموجب تحریم ہونا اولی ہوگاکیون کہ تحریم کا ایجاب بھی تغلیظ یعنی حکم میں سختی کی ایک صورت ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اس شخص کے حج کے بطلان کا حکم صادرفرمادیاجس نے وقوف عرفہ سے قبل ہی اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرلی ہوتوزانی کا حج بطریق اولیٰ باطل ہوجانا چاہیے اس لیے کہ حج کے بطلان کا حکم دراصل حج میں ہم بستری کی ممانعت کی تغلیظ کی خاط رہے اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے وطی حلال کی صورت میں بیوی کی ماں اور بیٹی کی تحریم کے ایجاب کا حکم صادرفرمادیاتو اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ زناکے حکم کی تغلیظ کی خاطر اس کے تحت ہونے والی ہم بستری کی صورت میں زانیہ کی ماں اور بیٹی کی تحریم کا حکم بطریق اولی ثابت ہوجائے۔ امام شافعی کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب غلطی سے کسی کو قتل کردینے والے پر کفارہ واجب کردیاتوقتل عمد کے مرتکب پر اس کا وجوب بطریق اولی ہوگا امام شافعی کی یہ بات اس لیے درست نہیں ہے کہ قتل عمد کے مرتکب پر اس کا وجوب بطریق اولی ہوگا امام شافعی کی یہ بات اس لیے درست نہیں ہے کہ قتل عمدکاحکم قتل خطا کے حکم کی بہ نسبت زیادہ سخت ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حج فاسد ہوجانے، روزہ ٹوٹ جانے اور غسل واجب ہوجانے کے لحاظ سے ہمبستری کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا خواہ یہ ہم بستری زنایاغیرزنا کی بنیادپرہوئی ہے اس لیے تحریم کے لحاظ سے بھی ان دونوں قسموں کی ہمبستری کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ اگریہ کہ جائے کہ مباح ہمبستری کی صورت میں مہر کے وجوب کا حکم لازم ہوجاتا ہے جبکہ زنا کی بنیادپرہونے والی ہمبستری کی صورت میں ایسا کوئی حکم لازم نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمبستری کی یہ دونوں صورتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ زنا کی بنیاد پر ہونے والی ہمبستری کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ ہمبستری کے نتیجے میں مال اور حدکاوجوب ایک دوسرے کے آگے پیچھے آتے ہیں اس لیے کہ جب حدواجب ہوگی تومہرواجب نہیں ہوگا اور جب مہرواجب ہوگا تو واجب نہیں ہوگی اس لیے ان دونوں میں ہر ایک دوسرے کی جگہ آتا ہے۔ جب زانی پر حدواجب ہوجائے گی تو وہ اس مال کے قامئم مقام ہوجائے گی جس کا حکم ہمبستری بناپرلگ سکتا تھا اس لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اس حدیث سے استدلال کرے جس کی ہمیں عبدالباقی نے روایت کی ، انھیں محمد بن اللیث الجزری نے، انہیں اسحاق بن بہلول نے، انہیں عبداللہ بن نافع نے، انہیں مغیرہ بن اسماعیل بن ایوب بن سلمہ الزہری نے ابن شہاب الزہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ حضور ﷺ سے ایک شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو حرام طریقے سے کسی عورت کاپیچھاکرتا ہے آیاوہ اس کی ماں سے نکاح کرسکتا ہے۔ یا حرام طریقے سے مان کاپیچھا کرتا ہے۔ آیاوہ اس کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے، آپ نے اس کے جواب میں فرمایا (لایحرم الحرام الحال انما یحرم ماکان بنکاح، حرام چیز کسی حلال چیز کو حرام نہیں کرسکتی) یعنی بیوی کی ماں یابیٹی کے ساتھ ناجائز تعلقات کا بیوی کے ساتھ جائز ادواجی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ نیز فرمایا (حرمت کا سبب صرف وہ ازدواجی رشتہ بنتا ہے جو نکاح کی بنیادپراستوارہواہو) اسی طرح اسحاق بن محمد الفروی نے عبداللہ بن عمر سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لایحرم الحرام الحلال) نیز عمربن حفص نے عثمان بن عبدالرحمن سے انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا (لایفسدالحرام الحلال، کوئی حرام شئی کسی حلال شئی کو فاسد نہیں کرتی۔ ) یہ روایتیں اہل علم کے نزدیک باطل ہیں اور ان کے راوی ناپسندیدہ ہیں۔ مثلا مغیرہ بن اسماعیل ایک مجہول اور نامعلوم شخص ہے اس کی روایت کی بنیاد پر کسی شرعی مسئلے کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی خاص کر اس وقت جبکہ اس کی روایت ظاہر قرآن سے متعارض ہے۔ اسی طرح اسحاق بن محمد روایت کے سلسلے میں مطعون ہے، یعنی فن روایت کی روشنی میں اس پر اعتراضات کیئے گئے ہیں۔ یہی حالت نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ پہلی روایت میں روایت میں عورت کاناجائز اور حرام طریقے سے پیچھا کرنے کا ذک رہے، ہمبستری کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے حضور ﷺ کے جواب کا تعلق اس پیچھا کرنے کے سوال سے ہے اور آپ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ صرف کسی عورت کاناجائز طریقے سے پیچھاکرناحرمت کا سبب نہیں بنتابل کہ حرمت اس وقت ہوگی جب نکاح ہوجائے گا۔ پیچھا کرنے کے مفہوم میں ہمبستری کا اثبات نہیں ہے بلکہ اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ دل میں اس کا خیال بیٹھ جائے جس سے مجبورہوکروہ اس پر نظر ڈالے یا اسے بہلا پھسلاکرہمبستری پر آمادہ کرے وغیرہ۔ حضور ﷺ نے اپنے جواب کے ذریعے یہ بتادیا کہ یہ چیز تحریم کی موجب نہیں ہے۔ تحریم صرف اس وقت واقع ہوتی ہے جب دونوں کے درمیان نکاح کی بنیادپررشتہ ازواج قائم ہوجائے اس طرح اس روایت میں وطی کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے اور آپ کے ارشاد (لایحرم الحرام الحلال) کا تعلق عورت کاپیچھا کرنے کے سوال سے ہے جس میں بدکاری کا دخل نہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت جس میں حضور ﷺ نے فرمایا (لایحرم الحرام الحلال) تو ہوسکتا ہے کہ یہ روایت بھی بعینہ اسی واقعہ سے تعلق رکھتی ہو جس کے ساتھ پہلی روایت کا تعلق ہے۔ اگر روایت صحیح ہے تودرحقیقت یہ بدنظری اور بدکاری پر بہلا پھسلاکر آمادہ کرنے کے متعلق ہے، وطی کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے۔ اس روایت میں حضور ﷺ کی ارشاد کردہ بات کا مقصد اس توہم کا ازالہ ہے کہ صرف بدنظری کی بناپرتحریم واجب ہوجاتی ہے کیونکہ حضور ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ (زنا) العینین النظر وزناالرجلین المشی، کسی پر غلط نظر ڈالنا آنکھوں کا زنا اور بدکاری کے ارادے سے چل کرجانا قدموں کا زنا ہے۔ اس روایت کی بناپرہوسکتا تھا کہ کوئی یہ خیال کربیٹھے کہ صرف غلط نظر ڈالنا موجوب تحریم ہے جس طرح ہم بستری موجب تحریم ہے کیونکہ حضور ﷺ نے غلط نظرکو بھی زناکانام دیا ہے۔ اس توہم کو دور کرنے کے لیے آپ نے یہ خبردی کہ یہ حرکت موجب تحریم نہیں ہے اور یہ کہ ملاپ نہ ہونے کی صورت میں تحریم کا ایجاب عقدنکاح کی بناپرہوتا ہے خواہ اس کے بعد ملاپ اور یکجائی کی صورت نہ بھی ہوئی ہو۔ جب اس روایت میں ہمارا بیان کردہ احتمال موجود ہے تو پھر اس کی بنیاد پر اعتراض باطل ہوگیا کہ تحریم کا دائرہ صرف نکاح اور مباح ہمبستری تک محدود نہیں ہے اس لیے کہ اس مسئلے میں کسی کا اختلاف نہیں کہ جو شخص اپنی لونڈی سے حیض کی حالت میں ہمبستری کرلیتا ہے اس کی یہ ہمبستری دطی حرام شمارہو گی جس کے ساتھ نکاح کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن یہ موجب تحریم ہوگی۔ اس مثال کی بناپر اب یہ کہنا باطل ہوگیا کہ تحریم کا دائرہ صرف نکاح اور مباح ہمبستری تک محدود ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے اپنی ایسی لونڈی سے ہمبستری کرلی جس میں ایک اور شخص بھی شریک ہو یا یہ کہ لونڈی اس کی ہی ہو لیکن مجوسی ہوتوان دونوں صورتوں میں وہ حرام وطی کا مرتکب ہوگا جس کے ساتھ نکاح کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن یہ ہمبستری تحریم کی موجب بن جائے گی۔ یہ چیز اس پر دال ہے کہ درج بالاروایت اگر ثابت بھی ہوجائے پھر بھی اس میں دطی حرام کی بنا پر تحریم کے ایجاب کی نفی کے لیے عموم موجود نہیں ہے نیز اللہ تعالیٰ نے ظہار کرنے والے پر اس کی بیوی کردی ہے۔ اور اس کے اس قول کو ناپسندیدہ اور جھوٹ قراردیا ہے۔ ظہار کے اس قول میں تحریم کی کوئی بات بظاہر موجود نہیں لیکن پھر بھی اس کی بناپرتحریم وطی واقع ہوگئی۔ علاوہ ازیں حضور ﷺ کے قول (الحرام لایحرم الحلال) سے استدلال درست نہیں ہے اس لیے کہ آپ کے اس ارشاد کا اندازبیان مطلق ہے کسی وجہ یا سبب کے ساتھ مقید نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ اول تو یہ کہ حلال وحرام اللہ تعالیٰ کا وہ حکم ہوتا ہے جو کسی چیز کو حلال یا حرام قراردینے سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ہمیں یہ بات حقیقۃ معلوم ہے کہ کسی چیز کے متعلق تحریم کے حکم اور اس کے بالمقابل کسی اور چیز کے متعلق تحلیل کے حکم ساتھ تحلیل وتحریم کے ایجاب کے سلسلے میں کسی دلالت کے بغیر کوئی اور حکم متعلق نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اگر حضور ﷺ کے اس ارشاد کو اس کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جائے تو ہمارے زیربحث مسئلے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ ہم بھی اسی قول کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی چیز کی تحریم کا حکم نفس ورود کی بناپر کسی مباح چیز کی تحریم کا موجب نہیں بن سکتا۔ یہ صرف اس وقت تحریم کا موجب بن سکتا ہے جب ایسی کوئی دلیل قائم ہوجائے جو اس مباح چیز کی تحریم کی اسی حیثیت سے موجب بن رہی ہو جس حیثیت سے وہ پہلی چیز کی تحریم کی موجب بنی تھی۔ اس صورت میں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کی تحلیل کا حکم منصوص طریقے سے بیان فرمادیاہو وہ چیزتحلیل کے اس حکم پر برقرار رہے گی اور جب کسی اور چیز کی تحریم کا حکم آئے گا توقیاس سے کام لیتے ہوئے اس حکم کی بناپر اس پہلی چیزپر اعتراض جائز نہیں رہے گا جس پر ابتداہی سے تحلیل کا حکم لگ چکا ہے۔ اس طرح قیاس سے کام لیتے ہوئے مباح چیزپرتحریم کا حکم لگانے سے روک دیا گیا ہے۔ اس سے ان لوگوں کے قول کا بھی بطلان ہوگیا جو قیاس کے ذریعے حکم کے نسخ کے قائل ہیں۔ یہ وہ مفہوم ہے جس کا درج بالاروایت کے الفاظ متقاضی ہیں بشرطیکہ روایت کو درست تسلیم کرلیاجائے۔ یہ تو ایک وجہ ہوئی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کے ارشاد (الحرام لایحرم الحلال) سے مراد یہ ہے کہ کوئی حرام کام کسی حلال کام کو حرام نہیں کرتا۔ اگر یہ معنی مراد ہوں تولامحالہ روایت کے الفاظ میں کچھ محذوف ماننا پڑے گا اور الفاظ کے حقیقی معنوں کے اعتبار کی بجائے اس محذوف کا اعتبار کرنا واجب ہوگا۔ اس صورت میں دو وجوہ کی بناپرروایت سے استدلال کرنا درست نہیں ہوگا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ محذوف چونکہ مذکور نہیں ہے کہ اس کے عموم کا اعتبار کیا جائے اس لیے اس کے عموم سے استدلال ساقط ہوجائے گا کیونکہ محذوف تو مذکور نہیں ہے کہ وہ اپنے دائرے میں آنے والی تمام مسمیات اور مدلولات کے لیے عموم کے معنی دے۔ اس بناپر کسی کے لیے ایسے محذوف کے عموم سے استدلال درست نہیں ہوگا جو مذکور نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں اس لحاظ سے عموم کا اعتبار درست نہیں ہوگا کہ اس جیسے محذوف میں عموم کا اعتقاددرست نہیں ہوتا کیونکہ اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ حرام حلال کی تحریم کا موجب بن جاتا ہے۔ مثلانکاح فاسد کی بناپرہمبستری، لونڈی کے ساتھ حیض کی حالت میں مباشرت حیض کی حالت میں بیوی کو تین طلاق دے دینا، ظہار، شراب جس میں پانی ملادیاجائے، ارتدادجونکاح کو باطل کرکے بیوی کو شوہرپرحرام کردیا ہے۔ اور اسی طرح کے دوسرے افعال جو حلال کی تحریم کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس لیے حضور ﷺ کا یہ ارشاد (الحرام لایحرم الحلال) اگر عموم کے لفظ کے ساتھ وارد بھی ہوتا تو بھی اس عموم کا اعتقاددرست نہ ہوتا اور اس کے ورود کے ساتھ ہی یہی سمجھا جاتا کہ آپ کی اس سے مراد بعض حرام افعال ہیں جو حلال کے لیے تحریم کا موجب نہیں بنتے۔ اس صورت میں ان افعال کے حکم کے اثبات کے لیے کسی اور دلالت کی ضرورت پیش آجاتی ہے جس طرح کہ تمام مجمل الفاظ کے سلسلے میں طریق کا رہے۔ نیز اگر حضور ﷺ منصوص طریقے سے اس محذوف کا ذکر فرمادیتے جس کافریق مخالف کو دعوی ہے اور آپ کے ارشاد کے الفاظ یہ ہوتے (ان فعل الحرام لایحرم الحلال) تو پھر بھی فریق مخالف کی بات پر اس کی دلالت نہیں ہوتی اس لیے کہ ہم بھی تویہی کہتے ہیں کہ فعل حرام حلال کی تحریم کا موجب نہیں ہے۔ اس صورت میں روایت کے الفاظ کو ان کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جاتا اور اس میں یہ دلالت نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کسی فعل حرام کے وقوع کی صورت میں حلال کو حرام قرار نہیں دیتا۔ اگریہ کہاجائے کہ اس ارشاد کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ حرام کے ارتکاب کی بناپرحلال کو حرام قرار نہیں دیتا تو جواب میں یہ کہاجائے گا کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد کے جو معنی معترض نے بیان کیئے ہیں اگر وہ مراد ہوں گے تو یہ اس کے مجازی معنی ہوں گے، حقیقی معنی نہیں ہوں گے۔ اس صورت میں اس مجازی معنی کے حکم کے اثبات کے لیے کسی دلالت کی ضرورت پیش آئے گی مجازی معنوں میں کسی لفظ کاستعمال صرف اس وقت درست ہوتا ہے۔ جب اس پر دلالت قائم ہوجائے۔ امام شافعی نے ایک مناطرے کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے کسی سے کیا تھا۔ اس کی روئید اوپر غور کرنے سے بڑاتعجب پیدا ہوتا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اس شخص نے مجھے سوال کیا، آپ یہ کیوں کہتے میں کہ حرام کسی حلال کی تحریم کا موجب نہیں بنتا ؟ میں نے جواب میں کہا (رح) (رح) : قول باری ہے (ولاتنکحوامانکح اباء کم من النساء) بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 311 نیز فرمایا (وحلائل ابناء کم الذین من اصلابکم، اور تمھارے صلبی بیٹوں کی بیویاں) نیز فرمایا (وامھات نساء کم، اور تمہاری بیویوں کی مائیں) تاقول باری (اللاتی دخلتم بھن) تم نہیں دیکھتے کہ قرآن نے ان آیات میں جن خواتین کا ذکرکیا ہے انہیں وہ نکاح یادخول اور نکاح کی بناپرحرم قراردے رہا ہے۔ جواب ملا : کیوں نہیں، اس پر میں نے کہا (رح) (رح) : آیایہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلال کی وجہ سے ایک چیز کو حرام اور حرام کی وجہ سے اسے حرام کردیا ہو جب کہ حرام ، حلال کی ضد ہے اور نکاح کی نہ صرف ترغیب دی گئی ہے۔ بلکہ اس کا حکم بھی دیا گیا ہے اور زنا کو حرام قراردیاگیا ہے چناچہ ارشادباری ہے (ولاتقربوا الزناانہ کان فاحشۃ وساء سبیلا، زناکے قریب بھی نہ جاؤ بیشک یہ بہت سخت قبیح گناہ اور بہت ہی براطریقہ ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اوپر کی گفتگو میں امام شافعی نے نکاح اور دخول کے نتیجے میں ثابت ہونے والی تحریم کی آیت نیز تحریم زنا کی آیت تلاوت کی ۔ حالانکہ ان دونوں آیتوں میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو زیربحث مسئلہ کے اختلافی پہلوپردلالت کرتی ہو اس لیے کہ نکاح اور دخول یعنی ہمبستری کی اباحت اور دونوں امور کی وجہ سے تحریم کے وجوب میں یہ بات ہرگز موجود نہیں ہے۔ کہ ان دونوں باتوں کے سوا کسی اور وجہ سے تحریم واقع نہیں ہوتی۔ مثلا اس سے ملک یمین کی بناپرہمبستری کی وجہ سے تحریم کی نفی نہیں ہوئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کیطرف سے زنا کی تحریم سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ تحریم صرف زنا کی بناپر واقع ہوتی ہے اس لیے تلاوت شدہ دونوں دونوں آیتوں کے ظاہر سے زنا کی صورت میں کی جانے والی ہمبستری کی بناپر نکاح کی تحریم کی نفی نہیں ہورہی ہے۔ اس لیے کہ آیت زنا میں تو صرف زنا کی تحریم ہے۔ اورتحریم زناتحریم نکاح کے ایجاب کی نفی پر دلالت نہیں کرتی جس طرح کہ نکاح اور وخول کی بناپر واجب ہونے والی تحریم میں اس بات کی نفی نہیں ہے کہ ان دونوں باتوں کے سوا کوئی اور وجہ تحریم کی موجب نہیں ہوتی۔ اس لیے زیربحث مسئلے کیا خ تلافی نکتے پر امام شافعی کی تلاوت کردہ دونوں آیتوں کی کوئی دلالت نہیں ہے اور نہ ہی ان میں مسائل کے سوال کا جواب موجود ہے جو اس نے امام شافعی سے ان کے قول کی صحت پر دلیل کے طورپر طلب کیا تھا۔ امام شافعی نے فرمایا کہ حرام حلال کی ضد ہے جب سائل نے ان سے ان دونوں کا فرق واضح کرنے کے لیے کہاتو انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے مابین فرق کردیا ہے۔ کیونکہ اس نے نکاح کی ترغیب دیکرزناکوحرام قراردیا ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس طرح امام شافعی نے اللہ کی جانب سے نکاح اور زنا کی اباحت اور زنا کی حرمت کے سلسلے میں کوئی اشکال نہیں تھا۔ اس نے تو صرف یہ پوچھا تھا کہ ان کے دعوے پر آیت کی کس طرح دلالت ہورہی ہے۔ امام شافعی اس کی وضاحت نہیں کرسکے اور اس کی بجائے یہ بتانے میں مصروف ہوگئے کہ فلاں چیزحرام ہے۔ اور فلاں چیز حلال ۔ اگرسائل اپنی بےبصیرتی کی بناپراتنا گرا ہواتھا کہ نکاح اور زنا کے درمیان کسی طرح فرق نہیں کرسکتا تھا تو پھر وہ جواب کے قابل ہی نہ تھا اس لیے کہ اس کی عقل ماری جاچکی تھی کیونکہ جس شخص میں ذرہ برابر بھی عقل ہو وہ اپنے آپ کو جان بوجھ کر انجام بننے کی اس پست سطح تک نہیں لاسکتا۔ اگروہ ان دونوں کے درمیان بایں معنی فرق کرسکتا تھا کہ ایک ممنوع اور دوسری مباح ہے اور امام شافعی سے اس کا سوال صرف یہ تھا کہ تحریم نکاح کے ایجاب میں ان دونوں باتوں کے اجتماع کے جواز کے امتناع کے تناظر میں ان دونوں کے درمیان فرق واضح کردیں توہم کہیں گے کہ امام شافعی نے اس کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیابل کہ زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہاباحت اور ممانعت کی دوآیتیں پڑھ کرا سے سنادیں اور یہ کہہ دیا کہ حلال حرام کی ضد ہے جبکہ حلال کا حرام کی ضدہونا ایجاب تحریم میں ان دونوں کے اجتماع کے لیے مانع نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ نکاح فاسد کی بنیاد پر وطی حرام ہے۔ اسی طرح کتاب اللہ کی نص اور اہل اسلام کے اتفاق واجماع کی رو سے حیض والی عورت سے ہمبستری حرام ہے۔ اور یہ وطی حلال کی ضد ہے، حالانکہ ایجاب تحریم میں ان دونوں کی حیثیت ایک جیسی ہے۔ اسی طرح حیض کے دوران طلاق دینا ممنوع ہے اور طہر کی حالت میں ہمبستری کرنے سے پہلے پہلے مباح ہے لیکن ایجاب تحریم میں دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔ اگر امام شافعی کا یہ مسلک ہے کہ ضدین میں قیاس ممتنع ہے تو پھر یہ ضروری ہے۔ کہ ایک حکم کے اندران کا کبھی اجتماع نہ ہو جب کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ شریعت کے اندر ایک حکم میں اجتماع ضدین ہوتا ہے۔ ان کا آپس کا تضادبہت سے احکام میں ان کے لیے اکٹھے ہوجانے میں کسی طرح مانع نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس جیسے حکم کے ساتھ نص درود جائز ہے اور جس حکم کے ساتھ نص ک اورود جائز ہو اس میں دلالت کے قیام کی بنیادپرقیاس کی گنجائش ہوتی ہے۔ اب جب عقل اور شرع دونوں کی رو سے ایک حکم کے اندراجتماع ضدین ممتنع نہیں ہے امام شافعی کا یہ قول کہ حلال حرام کی ضد ہے ان دونوں کے درمیان اس حیثیت سے فرق واضح کرنے کا موجب نہیں بن سکتا جس حیثیت سے سائل کی طرف سے سوال کیا گیا تھا۔ ایک حکم کے اندراجتماع ضدین ممتنع نہیں ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نمازی کو بلاضرورت نماز کے اندچلنے اور لیٹ جانے سے منع کردیا ہے۔ جبکہ چلنا اور لیٹ جانا ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن نہی کے حکم میں دونوں کا اجتماع ہوگیا ہے اس سلسلے میں مزید مثالیں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ مثالوں کی تلاش میں کسی کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام شافعی کے اس قول سے کہ حلال اور حرام ایک دوسرے کی ضد ہیں کوئی ایسامفہوم پیدانہ ہوسکا جوان دونوں کے درمیان فرق واضح کرنے کاموجوب بن جاتا۔ پھر امام شافعی نے سائل کا یہ قول نقل کیا کہ مجھے مباشرت کی دوصورتیں نظرآتی ہیں اور میں ایک پر دوسرے کو قیاس کرلیتا ہوں۔ اور فرمایا : میں نے اس سے کہا کہ حلال مباشرت کا موقعہ ہاتھ آنے پر تم تعریف کے سزاواربنوگے اور حرام مباشرت کا ارتکاب کرکے سنگسار کردیئے جاؤگے، کیا اس کے بعد بھی تم یہ کہہ سکتے ہو کہ ایک مباشرت دوسری کے مشابہ ہے ؟ اس نے جواب میں کہا : نہیں، ایک مباشرت دوسری کے مشابہ نہیں ہے لیکن کیا آپ اس کی مزید وضاحت کرسکیں گے ؟ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ سائل نے امام شافعی کی یہ بات تسلیم کرلی کہ ایک جماع دوسرے کے مشابہ نہیں ہے۔ اس سے اگر ان کی مرادیہ ہے حلال جماع اس حیثیت سے حرام جماع کے مشابہ نہیں کہ یہ دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ تو اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اگر ان کی مراد اس سے یہ ہے کہ ایجاب تحریم کے لحاظ سے ان دونوں کو یکساں سطح پر رکھنے کی صورت میں ایک جماع دوسرے کے مشابہ نہیں ہے تو اس کی انہوں نے کوئی دلیل پیش نہیں کی جو ایجاب تحریم کے لحاظ سے ایک کے ساتھ دوسرے کی مشابہت کی نفی کرنی ہو۔ دنیا میں قیاس کی جو بھی صورت پائی جاتی ہے اس میں ایک چیز کو بعض وجوہ سے دوسری چیز کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اس میں تمام وجوہ سے تشبیہ کی صورت نہیں ہوتی اس لیے اگر ایک وجہ کی بناپردوچیزوں کے درمیان افتراق تمام وجوہ سے ان دونوں کے درمیان فرق کا موجب بن جائے تو اس کی بناپرقیاس کے سارے عمل کا سرے سے ہی ابطلال لازم آجائے گا۔ کیونکہ ایسی دوچیزوں کے درمیان قیاس کا وجودہی جائز نہیں ہوتا جو تمام وجوہ سے ایک دوسری کی مشابہ ہوں اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ امام شافعی نے جو کچھ کہا اور سائل نے جو کچھ تسلیم کیا وہ سوال کے جواب کے لحاظ سے ایک بےمعنی کلام ہے۔ پھرسائل نے امام شافعی سے جواب کی مزید وضاحت چاہی تو آپ نے سائل سے کہا : اچھاکیاتم حلال کو جو خدا کی نعمت ہے حرام پر قیاس کروگے جو خدا کی لعنت ہے۔ اس جواب میں بھی پہلے معنی کی تکرار ہے صرف اس میں دوالفاظ نعمت اور لعنت کا اضافہ ہے جبکہ سائل کا سوال حسب ثابق ابھی تک تشنہ جواب ہے۔ آپ نے سائل کے اقتضاء کے مطابق جواب نہیں دیا۔ سائل دراصل یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ اس قیاس کی ممانعت کی کوئی دلیل بیان کریں۔ قیاس کی صورت یہ تھی کہ اس نے تحریم کی ایجاب میں حرام کو جو اللہ کی لعنت ہے یعنی حائضہ یامجوسی لونڈی کے ساتھ ہمبستری یا نکاح فاسد کی بناپرمباشرت کو حلال کے مساوی قراردے دیا تھا جو اللہ کی رحمت ہے۔ اس طرح امام شافعی نے دلیل کے بغیر جو بات کہی تھی اور جو دعوی کیا تھا۔ اس کا خود بخود خاتمہ ہوگیا۔ پھر سائل نے ان سے کہا : میرارفیق کہتا ہے کہ تحریم الحرام الحلال، (حرام ، حلال کو حرام کردیتا ہے) کی صورت تو موجود ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں : میں نے اس سے یہ کہا کیا یہ صورت ہمارے اس اختلافی مسئلے میں موجود ہے جس کا تعلق عورتوں سے ہے ؟ اس نے جواب دیا : نہیں لیکن دوسرے امور مثلانماز اور مشروبات میں موجود ہے ، اور عورتوں کے اس اختلافی مسئلے کو ان پر قب اس کرلیا جائے۔ اس پر میں نے اس سے سوال کیا : کیا تم کسی کو اس بات کی اجازت دوگے کہ وہ نماز کے معاملے کو عورتوں کے معاملے پر قیاس کا ذریعہ بنالے ؟ اس نے جواب میں کہا : نہیں کسی بھی پہلو سے نہیں۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ امام شافعی نے سائل کو یہ کہہ کرا سے دوسرے امور کے حوالے سے وتحریم الحرام الحلال، کو عورتوں کے معاملے پر قیاس کا ذریعہ بنانے سے روک دیا۔ جبکہ خود انہوں نے ابتدا میں علی الاطلاق یہ کہاتھامباح ہمبستری پر زناکوقیاس کرنا اس جائز نہیں کہ زن احرام ہے اور یہ حلال کی ضد ہے، حلال اللہ کی نعمت اور حرام اللہ کی لعنت ہے، انہوں نے اپنے قول میں یہ کوئی قید نہیں لگائی تھی کہ قیاس کی مخالفت کا معاملہ صرف عورتوں تک محدود ہے۔ انہوں نے جس فرق کا ذکرکیا ہے کہ حلال حرام کی ضد ہے اور اسے علی الاطلاق علت کا جودرجہ دیا ہے اس سے ان پر یہ لازم آتا ہے کہ جہاں جہاں یہ علت پائی جائے وہاں اسے جاری کردیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو وہ اپنے دعوے کو خود جھٹلانے کے مرتکب قرارپائیں گے پھر ان سے یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ، تحریم الحرام الحلال، کا حکم اگر عورتوں کے سوادوسرے امور میں جائز ہوسکتا ہے تو عورتوں کے سلسلے میں یہ کیوں جائز نہیں ہوسکتا۔ باوجودیکہ ان میں سے ایک دوسرے کی ضد ہے۔ ایک نعمت ہے تو دوسرالعنت جس طرح کہ ایجاب تحریم میں ملک یمین کے تحت ہمبستری کی وہی حیثیت تھی جو نکاح کی بنیاد پر ہونے والی مباشرت کی ہے حالانکہ ملک یمین نکاح کی ضد ہے، آپ نہیں دیکھتے کہ نکاح اور ملک یمین دونوں بیک وقت ایک مرد کو حاصل نہیں ہوسکتے۔ سائل نے امام شافعی سے یہ کہا : نماز حلال ہے لیکن نماز میں گفتگوحرام ہے۔ جب نمازی نماز میں کلام کرے گا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی : نماز حلال ہے لیکن نماز میں میں گفتگوحرام ہے۔ جب نمازی نماز میں کلام کرے گا تو اس کی نماز فاسدہوجائے گی۔ اس طرح حلال حرام کی وجہ سے فاسد ہوگیا، میں نے اس سے یہ کہا کہ : تمھاراخیال ہے کہ نماز فاسد ہوگئی ۔ نماز فاسد نہیں ہوئی بلکہ نمازی کا فعل فاسدہوگیا۔ تاہم اس کی ادائیگی اس بناپر نہیں ہوئی کہ تم نے اسے اس طرح ادا نہیں کیا تھا جس طرح تمہیں حکم دیا گیا تھا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ میں نہیں سمجھتا کہ جس شخص کو کسی سے مناظرہ کرنے کے فن سے ذرابھیمس ہو وہ دلائل س تہی دامن ہونے کی بناپر اپنے مدمقابل کی کم عقلی، جہالت اور ناسمجھی کے باوجود ایسی غیرمعیاری بات بھی کہہ سکتا ہے۔ اس لیے کہ کسی شخص کو علی الاطلاق یہ بات کہنے میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ جب نمازی نماز کے اندر کوئی ایسی حرکت کرے جو اس کے بطلان کی موجب ہو تو اس کی نماز فاسد ہوجاتی ہے جس طرح ہر شخص بےڈھرک یہ کہہ سکتا ہے کہ نکاح کو باطل کرنے والی چیز کی موجود گی اسے باطل کردیتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص نماز اورنکاح کے درمیان اس طرح فرق کرتا ہے کہ نماز کے بطلان کے باوجود اس پر فساد کے اسم کا اطلاق نہیں کرتا اور اسے فاسد نہیں کہتا جبکہ تمام لوگ ایسی نماز پر اس اسم کا اطلاق کرتے ہیں تو اس کے مدمقابل کے لیے نکاح کے بارے میں یہی بات کہنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آسکتی۔ وہ یہ کہہ سکتا ہے : میں یہ نہیں کہتا کہ نکاح فاسد ہوگیا۔ نکاح فاسد نہیں ہوتابل کہ نکاح کا فعل جو زنا ہے فاسد ہوتا ہے۔ نکاح فاسد نہیں ہوالیکن اس کی بیوی بائن ہوگئی اور اس کے حبالئہ عقد سے نکل گئی اور اس طرح نماز اور نکاح دونوں کا معاملہ یکساں ہوگیا۔ اس شخص سے یہ کہا جاسکتا ہے : فرض کروہم تمہارے اس دعوے کو تسلیم کرتے ہیں کہ باطل ہوجانے والی نماز پر تمھارے قول کے مطابق فساد کے اسم کا اطلاق ممنوع ہے تو کیا اسم کی حدتک تمہاری بات تسلیم کرلینے کے بعدمعنی اور مفہوم کے لحاظ سے ایک سوال اپنی جگہ باقی نہیں رہ جاتا ؟۔ یہ سوال تم سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں اس بات سے انکار نہیں کہ جب ممنوع کلام کی بناپرکلام کرنے والے کا نماز سے خارج ہوجانادرست ہوگیا اور اس کی نمازادا نہیں ہوئی تو پھر عورت کے مسئلے میں بھی یہی حکم واجب ہے یعنی اس کی ماں کے ساتھ وطی بالزنا کے بعد اس کا نکاح باقی نہ رہے جس طرح کلام کرنے کے بعد متکلم کی نماز باقی نہیں رہتی اور یہ کہ اس زانی شوہر سے اس کی یہ بیوی بائن ہوکر اس کے حبالہ عقد سے نکل جائے جس طرح کلام کرنے والا نمازی نماز سے نکل آتا ہے۔ اس سوال کی موجود گی کے باعث امام شافعی پر یہ بات لازم ہوجاتی ہے کہ وہ بیوع (خریدوفروخت) کی کسی بھی صورت پر فساد کا اطلاق نہ کریں بلکہ عقود کی تمام صورتوں کے متعلق بھی یہی اصول اپنائیں۔ ان کے قول کے مطابق عقود کے متعلق صرف اتنا کہاجائے کہ یہ درست نہیں اور ملکیت کی موجب نہیں ۔ عبارت یعنی الفاظ کی حدتک تو اس اطلاق کو روکا جاسکتا ہے لیکن گفتگوتوعمانی کی بنیاد پر ہوتی ہے الفاظ واسماء کی بنیاد پر نہیں۔ امام شافعی کے بیان کے مطابق سائل نے یہ کہا : ہمارا رفیق کہتا ہے کہ پانی حلال اور شراب حرام ہے۔ جب پانی کو شراب کے ساتھ ملادیاجائے تو پانی حرام ہوجائے گا، میں نے اس سے کہا : تمھاراکیاخیال ہے کہ تم پانی کو شراب میں ڈالوگے تو کیا حلال پانی کا وجود حرام میں مٹ نہیں جائے گا۔ اس نے کہا : کیوں نہیں ، میں نے اس سے پوچھا، کیا تم عورت کو ہر ایک کے لیے اسی طرح حرام پاتے ہو جس طرح شراب کو ؟ اس نے اس کا جواب نفی میں دیا۔ میں نے اس سے پھر پوچھا : کیا تم ماں اور اس کی بیٹی کو اسی طرح باہم مخلوط پاتے ہو جس طرح شراب اور پانی باہم مخلوط ہوجاتے ہیں ؟ اس نے پھر نفی میں جواب دیا۔ میں نے پھر کہا : اگر شراب کی قلیل مقدار پانی کی بڑی مقدار میں ملادی جائے توکیاپانی نجس ہوجائے گا، اس نے کہا : نہیں، میں نے پھر سوال کیا : کیا تھوڑی سی بدکاری اور ہلکاسابوسہ اور شہوت کے تحت ہلکاسالمس حرام نہیں ہوتابل کہ ان افعال قبیحہ کی بڑی مقدارحرام ہوتی ہے ؟ اس نے اس کا بھی جواب نفی میں دیا۔ اس پر میں نے کہا، اس لیے عورتوں کا معاملہ شراب اور پانی کے مشابہ نہیں ہے۔ امام شافعی کے مکالمہ پر تبصرہ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ درج بالا مکالمہ میں بھی امام شافعی نے مختلف صورتوں میں فرق بیان کرنے کے ذریعے بات چلائی ہے۔ شراب کا پانی کو حرام کردینے کی جس صورت کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق امام شافعی کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے یحییٰ بن معین کے اس قول پر کہ حرام حلال کو حرام نہیں کرتا اسے حجت کے طورپرپیش کیا تھا۔ مذکورہ بالامثال میں اس علت کی موجودگی کی بناپرتحریم کی نفی کرنے والے پرا سے لازم کردینادرست ہے کیونکہ، تحریم الحرام الحلال، کی نفی کی علت یہ نہیں تھی کہ پانی اور شراب باہم مخلوط نہیں تھے اور یہ کہ زنا کی قلیل صورت بھی تحریم کی موجب ہے، بلکہ اسل علت یہ تھی کہ حرام حلال کی ضد ہے اور حلال نعمت ہے جبکہ حرام لعنت ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ امام شافعی نے سائل کے ساتھ پورے مناظر کے دران اس بات کے سوا اور کسی چیز کو اپنے استدلال کی بنیاد نہیں بنایا۔ انہوں نے مختلف صورتوں میں جو فروق بیان کیے ہیں وہ اور وجوہ کی بناپرپیدا ہوئے ہیں جو امام شافعی کی بیان کردہ علت کے لیے مزیدانتقاض کا سبب بن جاتی ہیں اور اس میں طرح تخلف لازم آتا ہے کہ علت تو موجود ہوتی ہے لیکن اس کے تحت لازم ہونے والے حکم کا وجود نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں اگر تحریم کا انحصاراختلاط نیز ممنوع کو مباح سے علیحدہ نہ کرسکنے پر ہو تو پھر مباح ہمبستری کو تحریم کا موجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس میں اختلاف موجود نہیں ہوتا اسی طرح نکاح فاسد کی بناپرہمبستری نیز، ہمبستری کی ان تمام صورتوں کا یہی حکم ہونا چاہیئے جن کے ساتھ تحریم کا تعلق ہے۔ کیونکہ ماں اپنی بیٹی سے بالکل الگ اور ممتاز ہوتی ہے اور ان دونوں میں باہم مخوط ہوجانے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ جب اختلاط نہ ہونے کے باوجودان تمام وجوہ کی تحریم کا وقوع درست ہوتا ہے تو پھر زنا کی صورت میں اس کے وقوع سے انکارکیوں ہے ؟ ہم نے زیربحث مسئلہ کی ابتدا میں زنا کی بناپرتحریم کے وقوع پر قول باری (ولاتنکحوامانکح اباء کم من النساء) نیز قول باری (اللاتی دخلتم بھن) کی دلالت کا ذکر کردیا تھا۔ اس لیے اس مسئلے پر امام شافعی کی جانب سے ان کی پوری گفتگو کی روشنی میں کوئی دلالت یاس کے مشابہ کوئی چیز سامنے نہیں آئی۔ جب امام شافعی نے سائل کے سامنے پانی وشراب اور عورتوں کے مابین فرق بیان کرکے یہ کہہ دیا کہ عورتوں کا معاملہ شراب اور پانی کے معاملے کے مشابہ نہیں ہے تو پھر سائل کے ساتھ اپنی گفتگو کے اگلے حصے کو ان الفاظ میں بیان کیا۔ میں نے اس سے پوچھا : تم نے اپنے رفیق کی درج بالاباتیں کیسے قبول کرلیں ؟ اس نے جواب دیا : یہ باتیں ہمارے سامنے کسی نے اس طرح بیان نہیں کیں جس طرح آپ نے بیان کی ہیں۔ اگر ہمارے رفیق کو ان باتوں کے متعلق آپ کی بیان کردہ وضاحتوں کا علم ہوجائے تومیراخیال ہے کہ وہ کبھی اپنے مسلک پر قائم نہ رہے اس پر غفلت کا پردہ پڑا ہوا ہے اور اس میں بحث کرنے کی بھی طاقت نہیں ہے۔ امام شافعی مزید فرماتے ہیں : اس گفتگو کے نتیجے میں سائل نے اپنے رفقاء کے مسلک سے رجوع کرلیا اور کہنے لگا کہ آپ کے مسلک کو اختیارکرکے اب میں اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہوں، ابوبکرجصاص اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے اس دوست نے یہ کارگزاری دکھاکر کوئی بڑاتیر نہیں مارا۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ صاحب کون ہیں اور ان کا وہ رفیق کون ہے جس کے متعلق انہوں نے یہ کہا کہ اگر ہمارے رفیق کو ان فروق کا علم ہوجاتا تو وہ اپنے مسلک پر قائم نہ رہتا جہاں تک اس سائل کا تعلق ہے تو اس کے دل کی بےبصیرتی اس بات سے عیاں ہوگئی ہے کہ اس نے امام شافعی کے تمام دعوؤں کو بلاچون وچراتسلیم کرلیا اور ان سے زیربحث مسئلہ پر کسی دلیل تک کا مبطالبہ نہیں کیا۔ عین ممکن ہے کہ یہ کوئی عامی شخص ہوج سے فقہ سے کوئی مس نہیں تھا۔ البتہ دو باتیں اس کے اندرضرورموجودتھیں ایک جہالت اور کندذہنی اس کا پتہ ہمیں امام شافعی کے ساتھ اس کی گفتگو کی روئید ادنیز ایسی باتوں کو تسلیم کرلینے کے ذریعے چلاجن کی تسلیم کا کوئی جواز نہیں تھا۔ علاوہ ازیں اسکی ذہنی سطح کا ہمیں اس سے بھی اندازہ لگ گیا کہ اس نے مسول یعنی امام شافعی سے ایسے بےمعنی فروق بیان کرنے کا مطابلہ کیا جوعلل اور مقالیا ت کے معنی میں کسی فرق کا موجب نہیں بنتے اور پھر ان سطحی باتوں سے متاثرہوکر اپنے رفقاء کا مسلک ترک کرکے امام شافعی کا مسلک اختیار کرلیا۔ دوم عقل اور سمجھ کی کمی۔ وہ اس لیے کہ اسے یہ گمان پیدا ہوگیا کہ اگر اس کارفیق یہ باتیں سن لیتاتو اپنے مسلک سے رجوع کرلیتا، اس طرح اس نے اپنے گمان کی بنیادپران مسائل کے متعلق ایک غیر شخص کے بارے میں اپنافیصلہ سنادیاجن کی حقیقت کا اسے خودبھی علم نہیں تھا۔ دوسری ایسے شخص کے ساتھ گفتگوکرکے اسے اپنے مسلک کا قائل بناکرامام شافعی کی جانب سے مسرت کا اظہار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مناظرہ کے اندران دونوں کی سطح تقریبا یکساں تھی ورنہ اگر امام شافعی کے نزدیک اس شخص کی حیثیت ایک مبتدی اور انجام کی ہوتی تو وہ اس مناظرے کی روئیداداپنی کتاب میں ہرگز درج نہ کرتے۔ اگر ہمارے نوجوان اور مبتدی سطح کے رفقاء اس بحث میں حصہ لیتے تو ان پر بھی مذکورہ بالا مناظرے پیش کیئے گئے دلائل کا کھوکھلاپن اور سائل ومسئول کی سطیحت اور عملی کمزوری واضح ہوجاتی ۔ امام شافعی نے ایک اور مسئلے کا ذکرکر تے ہوئے فرمایا : میں نے سائل سے یہ کہا کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے بیٹے کا بوسہ لے لے تو اس کے نتیجے میں واقع ہونے والی علیحد گی کو تم عورت کی جانب سے شمار کرتے ہو جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے عورت کی جانب سے قرار نہیں دیا۔ یہ سن کر اس نے کہا اور آپ کا مسلک یہ ہے کہ عورت اگر مرتدہوجائے تو وہ شوہرپرحرام ہوجاتی ہے۔ میں نے جو اباکہا : میں تو اس بات کا بھی قائل ہوں کہ اگر عورت عد ت کے دوران ارتداد سے رجوع کرکے دوبارہ داخل اسلام ہوجائے توشوہر کے ساتھ اس کا نکاح باقی رہتا ہے کیا اس عورت کے بارے میں تمھارا بھی یہی مسلک ہے جو اپنے بیٹے کا بوسہ لے لیتی ہے ؟ اس نے جواب میں کہا نہیں ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ امام شافعی نے پہلے تو عورت کی طرف سے تحریم کے وقوع کے قول پر اپنے مدمقابل پر تنقید کردی پھر بعد میں خود اسی طریق کار کے قائل ہوکرعدت میں رجوع کرنے کا معاملہ عورت کے حوالے کردیاجس طرح ا ن کے مدمقابل نے تحریم کے وقوع کو اس کی جانب سے قراردیا تھا۔ پھر فرمایا : میں اس بات کا قائل ہوں کہ اگر عدت کی مدت گذرجانے کے بعد عورت ارتداد سے توبہ کرکے اسلام کی طرف رجوع کرلے توشوہر کو اس سے دوبارہ نکاح کرلینے کا اختیارہوگا کیا اس عورت کے متعلق تمھارا بھی یہی مسلک ہے جو اپنے شوہر کے بیٹے کا بوسہ لے لیتی ہے ؟ پھر فرمایا : مرتد عورت تمام مسلمانوں پر حرام رہتی ہے جب تک وہ اسلام کی طرف رجوع نہ کرلے، لیکن اپنے شوہر کے بیٹے کو چوم لینے کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں اپنے مدمقابل پر تنقید کرکے امام شافعی نے خود اپنے مسلک کی تردید کردی اور پھر حسب سابق فروق کے بیان میں لگ گئے ۔ میں نے ان کے ان تضادات کا اس غرض سے جائز ہ پیش نہیں کیا کہ نظروفکر سے مس رکھنے والے اصحاب کو ان کے متعلق کوئی شبہ ہے بلکہ میرامقصد صرف اصحاب یعنی احناف سے اختلاف رائے رکھنے والوں کے عملی مقام اور فکرونظر کی سطح کو واضح کرنا تھا۔ ساس سے بدکاری پر کیا حکم ہوگا اس مسئلے میں عثمان البتی کے مسلک کے متعلق جو یہ نقل کیا گیا ہے کہ نکاح سے قبل ہونے والی ساس سے بدکاری کے ارتکاب اور نکاح کے بعد اس کے ساتھ اس فعل قبیح کے ارتکاب کے درمیان فرق ہے۔ پہلی صورت میں رانیہ کی بیٹی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی اور دوسری صورت میں وہ بحالہ اس کی بیوی رہے گی یہ ایک بےمعنی سی بات ہے اس لیے کہ جس فعل کا ارتکاب ہمیشہ کے لیے تحریم کا موجب بنتا ہے۔ اس کے اس حکم کے ایجاب میں نکاح سے قبل یا نکاح کے بعد کی صورت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ رضاعت کو جب ہمیشہ کے لیے تحریم کا موجب قراردے دیا گیا تو اس حکم کے ایجاب میں نکاح سے قبل اور نکاح کے بعد کی رضاعت سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ لواطت کی بناپر ازدواجی رشتوں کا حکم لواطت کے متعلق ہمارے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ اس فعل قبیح کے ارتکاب کی بناپرمفعول کی ماں اور بیٹی فاعل پر حرام نہیں ہوتیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حرمت کا تعلق اس عورت کے ساتھ ہوتا ہے جس سے درست طریقے پر عقدنکاح ہوگیا ہو اور اس عقد کی وجہ سے ملک بضع کا جواز پیدا ہوچکاہو۔ چونکہ مرد کے اندرمباح طریقے سے اس عقدکاوجود نہیں ہوتا نیز ملک بضع کی بھی صورت پیدا نہیں ہوتی اس لیے تحریم کا حکم اس کے ساتھ متعلق نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص نے کسی شخص کو شہوت کے تحت لمس کیا تو اس کے ساتھ ماں اور بیٹی کی تحریم کیا یجاب کا کوئی حکم متعلق نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس عورت کو شہوت کے تحت چھولینا متفقہ طورپروطی کے حکم میں ہے اور اس کے ساتھ تحریم کا حکم متعلق ہوجاتا ہے جب اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ مرد کو شہوت کے تحت لمس کرنے کے نتیجے میں کسی حکم کا تعلق نہیں ہوتا تو اس کے علاوہ اس کے ساتھ فعل قبیح کے ارتکاب کا بھی یہی حکم ہوگا یعنی ماں اور بیٹی کی تحریم کے ایجاب کا حکم متعلق نہیں ہوگا۔ اس میں ہماری مذکورہ بات کی صحت پر دوطرح سے دلالت موجود ہے۔ ایک تو یہ کہ مرد کو شہوت کے تحت ہاتھ لگاناچون کہ ایسافعل ہے جس کا ہاتھ لگانے والا عقدنکاح کے واسطے سے مالک نہیں ہوتا اور اس کی بناپرتحریم کے کسی حکم کا بھی تعلق نہیں ہوتا اس لیے فعل قبیح کے ارتکاب کا بھی یہی حکم ہوگا کیونکہ عقد نکاح کے واسطے سے وہ اس فعل کے ارتکاب کا مالک نہیں ہوتا۔ دوم یہ کہ عورت کو شہوت کے تحت ہاتھ لگاناسب کے ہاں ہمبستری کے حکم میں ہوتا ہے آپ نہیں دیکھتے کہ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ بیوی کو ہاتھ لگانا اس کی بیٹی کی تحریم کا موجب بن جاتا ہے جس طرح اس کے ساتھ ہمبستری اس حکم کی موجب بن جاتی ہے اسی طرح ملک یمین کی بناپر لونڈی کو لمس کرنا اس تحریم کا موجب ہوتا ہے جسے ہمدردی واجب کردیتی ہے۔ اسی طرح وطی بالزنا کی بناپرتحریم کا باعث بننے والا شخص لمس کی بناء پر بھی تحریم کا سبب بن جاتا ہے۔ چونکہ مرد کو لمس کرنا موجب تحریم نہیں ہے اس لیے ضرور ی گیا کہ اس کے فعل قبیح کا ارتکاب کا بھی یہی حکم ہوکیون کہ یہ دونوں صورتیں عورت کے سلسلے میں یکساں حکم کی حامل ہیں۔ شہو ت کے تحت لمس کسی وقت وطی کے حکم میں ہوگا ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصاب ثوری امام مالک ، اوزاعی لیث بن سعد اور امام شافعی کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت کو شہوت کے تحت ہاتھ لگانا اس کی ماں اور بیٹی کی تحریم کے لحاظ سے اس کے ساتھ ہمبستری کا حکم رکھتا ہے۔ اس لیے جو شخص وطی حرام کے ذریعے تحریم کا سبب بن جائے گا وہ شہوت کے تحت لمس کرکے بھی تحریم کا باعث نہیں ہوگا۔ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ بیوی اور لونڈی کو لمس کرنا جس کی اباحت ہے، ماں اور بیٹی کی تحریم کا موجب ہے، البتہ ابن شبرمہ سے ایک قول منسوب ہے کہ لمس کی بناپرتحریم واجب نہیں ہوتی۔ بلکہ اس ہمبستری کی بناپرواجب ہوتی ہے حوحدزنا کی موجب بن سکتی ہو۔ یہ اک شاذقول ہے جس کے خلاف پہلے ہی اجماع کا انعقاد ہوچکا ہے۔ عورت سے نظر بازی موجب تحریم ہے یا نہیں کسی عورت پر نظر ڈالنا موجب تحریم سے یا نہیں اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے ہمارے تمام اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی نے عورت کی شرمگاہ کو شہوت بھری نظروں سے دیکھ لیاتوایجاب تحریم میں یہ لمس کی طرح ہوگا۔ شرمگاہ کے علاوہ جسم کے کسی اور حصے کو شہوت بھری نظروں سے دیکھ لینا موجب تحریم نہیں ہوگا۔ ثوری کا قول ہے کہ اگر اس نے جان بوجھ کر اس کی شرمگاہ پر نظرڈالی تو اس عورت کی ماں اور بیٹی اس پر حرام ہوجائیں گی ثوری نے شہوت بھری نظروں کی شرط نہیں لگائی ۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر کسی نے تلذذ اورحظ اٹھانے کی خاطر اپنی لونڈی کے بالوں یا اس کے سینے یاپنڈلی یاپرکشش حصوں پر نظرڈالی تو اس پر اس لونڈی کی ماں اور بیٹی حرام ہوجائیں گی۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ اور امام شافعی کا قول ہے کہ صرف نظر ڈالنا موجب تحریم نہیں ہے جب تک اس کے ساتھ لمس کا عمل بھی نہ ہوجائے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ جریربن عبدالحمید نے حجاج سے اور انہوں نے ابوھانی سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من نظرالی فرج امراۃ حرمت علیہ امھا وبنتھاجس شخص نے کسی عورت کی شرمگاہ پر نظرڈالی اس پر اس کی ماں اور بیٹی حرام ہوگئیں۔ ) حمادنے ابراہیم سے انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د سے روایت کی ہے کہ ان کا قول ہے : اللہ تعالیٰ اس شخص پر نظرکرم نہیں ڈالے گا جس نے کسی عورت اور اس کی بیٹی کی شرمگاہوں پر نظرڈالی ہو۔ اوزاعی نے مکحول سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ کی نظر اپنی لونڈی پر برہنہ حالت میں پڑگئی بعد میں آپ کے ایک بیٹے نے اپنے لیے آپ سے وہ لونڈی مانگ لی تو آپ نے جواب دیا کہ یہ لونڈی اب تمہارے لیے حلال نہیں رہی ۔ المثنی نے عمروبن شعیب سے انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جس شخص نے اپنی لونڈی کو برہنہ حالت میں دیکھ لیا اور اس کے دل میں اس سے ہمبستری کا ارادہ ہوگیا تواب وہ لونڈی اس کے بیٹے کے لیے حلال نہیں رہی۔ شعبی سے مروی ہے کہ مسروق نے اپنے اہل خانہ کو لکھا کہ میری فلاں لونڈی کو فروخت کردوکیون کہ میں نے اسے ہاتھ لگایا ہے اور نظرڈالی ہے جس کی بناپر اب یہ میرے ولد پر حرام ہوگئی ہے۔ حسن، قاسم بن محمد مجاہد اور ابراہیم کا بھی یہی قول ہے۔ اس طرح نظر اورلمس کی بناپرتحریم کے ایجاب کے متعلق سلف میں اتفاق رائے ہوگیا۔ تاہم ہمارے اصحاب نے ایجاب تحریم کو جسم کے باقی حصوں کی بجائے صرف شرمگاہ پر نظر ڈالنے کے ساتھ خاص کردیا ہے۔ اس کی وجہ حضور ﷺ سے مروی وہ روایت ہے جس میں آپ کا ارشاد ہے (من نظرالی فرج امراۃ لم تحل لہ امھاولابن تھا، جس شخص نے کسی عورت کی شرمگاہ پر نظرڈال دی اس کے لیے نہ اس کی ماں حلال رہی اور نہ ہی اس کی بیٹی) ۔ اس روایت میں حضور ﷺ نے شرمگاہ پر نظر ڈالنے کو ایجاب تحریم کے ساتھ خاص کردیا اور جسم کے باقی حصوں پر نظر ڈالنے کو نظرانداز کردیا۔ اسی طرح کی روایت حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے بھی ہے۔ ان دونوں حضرات کے علاوہ سلف سے کوئی ایسی روایت نہیں ہے جوان کی روایت کے خلاف جاتی ہو۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جسم کے دوسرے حصوں کی بجائے صرف فرج پر نظر ڈالنا ایجاب تحریم کے ساتھ مخصوص ہے جبکہ قیاس کا تقاضایہ تھا کہ فرج پر نظر ڈالناایجاب تحریم کے ساتھ محضوص ہے جبکہ قیاس کا تقاضایہ تھا کہ فرج پر نظر ڈالنے سے تحریم واقع نہیں ہوتی۔ مگر ہمارے اصحاب نے روایت اور سلف کے اتفاق کی بناپرقیاس کو ترک کردیا اور غیرفرج پر نظر ڈالنے کی صورت میں ایجاب تحریم کا حکم نہیں لگایاخواہ غیرفرج پر یہ نظر ڈالنا شہوت کی بناپرکیوں نہ ہو جیسا کہ قیاس کا تقاضا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ تمام اصولی مسائل میں نظر کے ساتھ کسی حکم کا تعلق نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص احرام یاروزے کی حالت میں نظرڈال دے اور پھرا سے انزال بھی ہوجائے تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ اگر لمس کی بناپرانزال ہوجاتا تو اس صورت میں اس کا روزہ فاسد ہوجاتا اور حرام کی صورت میں اس پر دم یعنی جانورذبح کرنا لازم ہوجاتا۔ اس سے آپ کو یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ لمس کے بغیر نظر کی بناپر کوئی حکم متعلق نہیں ہوتا۔ اس لیے ہم نے یہ کہا تھا کہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ نظر کی بناپر کسی چیز کی تحریم نہ ہو۔ لیکن ہمارے اصحاب نے شرمگاہ پر نظر کی صورت میں قیاس کو ہماری مذکورہ روایت کی بناپرترک کردیا۔ ابن شبرمہ کے مسلک کے حق میں قول باری (فان لم تکونوادخلتم بھن فلاجناح علیکم) اگر تمھارا ان کے ساتھ تعلق زن وشوقائم نہیں ہواہوتو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں) کے ظاہر سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ لمس چونکہ دخول یعنی زن وشو نہیں ہے اس لیے اس کی بناپرتحریم کا ایجاب لازم نہیں آئے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ آیت میں دخول مادخول کے قائم مقام ہونے والی بات مراد ہو جس طرح کہ یہ قول باری (فان طلقھا فلاجناح علیھما ان یتراجعا، اگر اس نے اس نے اسے طلاق دے دی تو ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلینے میں ان پر کوئی گناہ نہیں ) یہاں طلاق کا ذکرہوالیکن اس کے معنی ہیں طلاق یا اس کے قائم مقام ہونے والی کوئی بات۔ اس صورت میں اس کی دلالت ہمارے ذکرکردہ قول سلف اور ان کے اس اتفاق رائے پر ہوگی کہ لمس موجب تحریم ہے۔ اہل علم کے مابین اس مسئلے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ کسی عورت کے ساتھ عقد نکاح شوہر کے بیٹے پر اس عورت کی تحریم کا موجب ہے حسن، محمد بن سیرین، ابراہیم، عطاء بن ابی رباح اور سعیدبن المسیب سے یہ قول مروی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں کئے گئے برے عمل پر مواخذہ ہے یا نہیں قول باری ہے (الاماقدسلف، مگر جو ہوچکا ) عطاء سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ ، زمانہ جاہلیت میں جو ہوچکا سوہوچکا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں اس قول میں یہ احتمال ہے کہ عطاء کی اس سے مراد یہ ہے ہو کہ زمانہ جاہلیت میں جو کچھ ہوچکا اس کے بارے میں تم سے مواخذہ نہیں ہوگا اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ پہلے جو کچھ ہوچکا اس پر تمہیں برقراررکھاجائے گا بعض حضرات نے عطاء کے مذکورہ بالاقول کا یہی مطلب لیا ہے۔ لیکن یہ بات غلط ہے اس لیے کہ ایسی کوئی روایت نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ حضور ﷺ نے کسی شخص کے اس نکاح کو برقراررکھا ہو جو اس نے اپنے باپ کی بیوی سے کیا ہو خواہ یہ زمانہ جاہلیت میں کیوں نہ ہواہو۔ حضرت ابرء بن عازب نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ لے ابوبردہ ؓ نیارکو ایک شخص کی طرف روانہ کیا تھا جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شب باشی کی تھی اور بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ اس نے اپنے باپ کی بیوی کے ساتھ نکاح کرلیا تھا۔ آپ نے ابوبردہ ؓ کوا سے قتل کرکے اس کا مال و اسباب ضبط کرنے کا حکم دیا تھا زمانہ جاہلیت میں باپ کی بیوی کے ساتھ نکاح کرلینا عام تھا اگر حضور ﷺ کسی شخص کو جاہلیت کے اس نکاح پر برقرارکھتے تو یہ بات عام ہوجاتی اور بکثرت روایت ہوتی۔ لیکن آپ سے جب اس قسم کی کوئی بات منقول نہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قول باری (الاماقدسلف) سے مراد یہ کہ تم سے اس بارے میں کوئی مواخذہ نہیں ہوگایہ اس لیے ہے کہ ان کے طرزعمل کی مخالفت میں شرع کے ورود سے قبل تک انہیں ان کے سابقہ طریقوں پر برقرارہنے دیا گیا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ ان سے ان معاملات میں کوئی مواخذہ نہیں ہوگا جنہیں ترک کردینے کے متعلق ان کے سامنے کوئی سماعی دلیل قائم نہ ہوگئی ہو اس لیے قول باری (الاماقدسلف) میں اس مقام پر اس کے سوا اور کسی معنی کا احتمال نہیں جو ہم نے بیان کردیئے ہیں۔ دوبہنوں کو بیک وقت عقدنکاح میں رکھنے کے ذکرکے ساتھ اس قول (الاماقدسلف) کے ذکرکے اندر ایک اور احتمال ہے جو ہمارے مذکورہ احتمال کے علاوہ ہے اس کا تذکرہ ہم انشاء اللہ اس کے اپنے مقام پر کریں گے۔ یہاں قول باری (الاماقدسلف) استثناء منقطع کی صورت میں ہے جس طرح کہ کوئی یہ کہے ، لاتلق فلاناالامالقیت، (فلاں شخص سے مت ملو، البتہ اس سے پہلے جو مل چکے سو مل چکے) یعنی پہلے جو ملاقاتیں ہوچکی ہیں ان کی وجہ سے تم پر کوئی ملامت نہیں ۔ قول باری ہے (انہ کان فاحشۃ، یہ بڑی بےحیائی کی بات تھی) انہ، کی ضمیر سے نکاح کی طرف اشارہ ہے۔ تاہم اس میں دواقوال ہیں ایک تو یہ کہ نہی آجانے کے بعد اس قسم کا نکاح بےحیائی ہے یعنی، یہ بےحیائی ہے۔ اس صورت میں لفظ، کان، کے کوئی معنی نہیں ہوں گے عربوں کے کلام میں یہ بات موجود ہے۔ شاعرکاقول ہے ؎ فانک لورایت دیارقوم وجیران لناکانواکرام اگرتو ہمارے لوگوں اور ہمارے معززپڑوسیوں کے دیارکودیکھ لیتا ، یہاں لفظ، کان، کو بھرتی کے طورپر داخل کیا گیا ہے اس کے کوئی معنی نہیں اور نہ ہی یہ کسی شمار میں ہے اس لیے کہ شعرکاقافیہ مجرور ہے اور، کان، کے عمل کی صورت میں یہ مجرور نہیں ہوسکتا تھا۔ اسی طرح قول باری ہے (وکان اللہ علیما حکیما) جس کے معنی ہیں، اللہ علیم وحکیم ہے۔ زیربحث آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس سے مراد یہ ہو کہ زمانہ جاہلیت میں اس قسم کے جو نکاح ہوئے تھے وہ بےحیائی پر مبنی تھے اب تم ایسانہ کرویہ بات اس صورت میں ہوسکتی ہے جبکہ اس قسم کے نکاح کی تحریم کے متعلق ان کے سامنے سماعی دلیل قائم ہوچکی۔ اس قول کے قائلین نے قول باری (الاماقدسلف) کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ ایک شخص زمانہ جاہلیت کی اس قباحت سے اس طرح محفوظ رہ سکتا ہے کہ وہ اس سے کنارہ کشی اختیار کرلے اور ساتھ ساتھ توبہ بھی کرلے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اسے اس معنی پر محمول کرنا بہت رہے کہ نزول نہی کے بعد ایسی حرکت کرنا بےحیائی ہے۔ کیونکہ لامحالہ سب کے نزدیک یہی معنی مراد ہیں اور ابھی تک کوئی ایسی دلیل ہاتھ نہیں آئی ہے جس سے یہ معلوم ہوسکے گذشتہ پیغمبروں کے واسطے سے اس کی تحریم کی سماعی حجت ان کے لیئے قائم ہوچکی تھی جس کی وجہ سے وہ اب اس حرکت پر مستحق ملامت قراردیئے گئے ہیں۔ اس پر قول باری (الا ماقد سلف) بھی دلالت کررہا ہے۔ اور اس کا ظاہر اس بات کا مقتضی ہے کہ پہلے جو کچھ ہوچکا اس پر کوئی مواخدہ نہیں ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ آپ کی یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کرکے اس سے ہمبستری کرلی تو اس کی یہ ہمبستری زنا ہوگی جو حد کی موجب بن جائے گی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کو فاحشہ کا نام دیا ہے اور زنا کو بھی فاحشہ کے نام سے پکارا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے (ولاتقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فاحشہ ایک مشترک معانی رکھنے والا لفظ ہے جو بہت سی ممنوعات پر محمول ہوتا ہے ، مثلا قول باری ہے (الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ) کے متعلق مروی ہے کہ عورت کا اپنے شوہر کے گھر سے نکل کرجانا بھی فاحشہ ہے۔ بیوی شوہر کے خاندان والوں سے زبان درازی کرے یہ بھی فاحشہ ہے ایک روایت میں ہے کہ شوہر کے گھر میں فاحشہ کا مطلب یہ ہے کہ بیوی شوہر کے خاندان والوں سے زبان درازی پر اترآئے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد زنا ہے۔ اس طرح لفظ فاحشہ ایک ایسا اسم ہے جو ممنوعات کے ارتکاب کی بہت سی صورتوں کو شامل ہے اور زنا کے ساتھ اس طرح خاص نہیں ہے کہ جب اس کا اطلاق ہو تو اس سے زناہی مرادلی جائے۔ عقد فاسد کی بناپرہونے والی ہمبستری کو زناکانام نہیں دیاجاتا اس لیے کہ تمام مجوسی اور مشرکین جو اسلام کی رو سے فاسدشادی بیاہوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے انہیں اولاد زنا نہیں کہاجاتا۔ زنا اس ہمبستری کا نام ہے جو نکاح یا ملک یمین یا ان دونوں میں سے کسی ایک کے مشابہ صورت کے تحت نہ کی جائے اس لیے جب یہ ہمبستری کسی عقد کے تحت کی جائے گی توا سے زناکانام نہیں دیں گے خواہ یہ عقدصحیح ہو یا فاسد۔ قول باری ہے۔ (ومقتاوساء سبیلا، اور ناپسندفعل اور براچلن ہے) یعنی یہ اللہ کے نزدیک بھی مبغوض یعنی ناپسند یدہ ہے اور مسلمانوں کے نزدیک بھی۔ اس میں اس فعل کی تحریم کی تاکید اس کی تقبیح اور اس کے مرتکب کی مذمت ہے اور یہ بیان ہے کہ یہ بہت ہی براراستہ ہے کیونکہ یہ سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے۔ اور اسے اختیار کرنے والے کو جہنم تک پہنچادیتا ہے۔
Top