Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 21
وَ كَیْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَ قَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا
وَكَيْفَ : اور کیسے تَاْخُذُوْنَهٗ : تم اسے لوگے وَقَدْ : اور البتہ اَفْضٰى : پہنچ چکا بَعْضُكُمْ : تم میں ایک اِلٰى بَعْضٍ : دوسرے تک وَّاَخَذْنَ : اور انہوں نے لیا مِنْكُمْ : تم سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : پختہ
اور تم دیا ہوا مال کیو نکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہیں ؟
قول باری ہے (وکیف تاخذونہ وقدافضی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقا غلیظا، اور آخرتم اسے کس طرح لے لوگے جبکہ تم اپنی بیویوں سے لطف اندوز ہوچکے ہو اور انہوں نے تم سے پختہ عہد بھی لے لیا ہے۔ ) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ فراء کا قول ہے کہ افضاء خلوت کو کہتے ہیں خواہ ہمبستری نہ بھی ہوئی ہولغت کے لحاظ سے الفاظ کے معانی کے سلسلے میں فراء کا قول حجت ہے۔ اگر افضاء کے اسم کا اطلاق خلوت پر ہوتا ہے تو آیت میں خلوت میسرآجاے کے بعد طلاق کی صورت میں مطلقہ سے کسی چیز کو واپس لینے کی ممانعت ہوگئی ہے۔ اس لیے کہ قول باری (وان اردتم استبدال زوج) فرقت اور طلاق کے مفہوم کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ افضاء کا لفظ فضاء سے لیاگیا ہے۔ فضاء اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی عمارت وغیرہ نہ ہو جو وہاں پڑی ہوئی کسی چیز کو حاصل کرنے میں رکاوٹ بن سکے خلوت کو افضاء کا نام اسی لیے دیا گیا کہ اس حالت میں ہمبستری کے عمل کے لیئے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔ بعض کا یہ قول ہے کہ کشادگی کا نام فضاء ہے۔ جب کوئی شخص اپنے مقصود میں کشادگی محسوس کرے توکہاجاتا ہے، افضی الرجل، اس مفہوم کے تحت بھی خلوت کو افضاء کا نام دینا درست ہے کیونکہ اس کے ذریعے مرد کو مقام وطی یعنی بیوی کی شرمگاہ تک رسائی ہوجاتی ہے اور اس عمل کے لیے اسے پوری گنجائش حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ خلوت سے پہلے بیوی تک رسائی میں اسے تنگی پیش آرہی تھی اس مفہوم کی بناپرخلوت کو افضاء کا نام دے دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ میاں بیوی کو خلوت میسرآجانے شوہر کو ہمبستری کا موقعہ مل جانے اور بیوی کی طرف سے خود سپرد گی کا مظاہرہ کردینے اور جسمانی تلذذکاپوراموقع دے دینے کے بعد شوہر کے لیے بیوی کو دی ہوئی کسی چیز کی واپسی جائز نہیں ہے۔ ظاہر آیت کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ اگر نفرت اور روگردانی کا اظہار شوہر کی طرف سے ہو تو اس کے لیے دی ہوئی کسی بھی چیز کو واپس لینے کی ممانعت ہے۔ اس لیے کہ قول باری (وان اردتم استبدال زوج مکان زوج) ۔ اس پر دلالت کررہا ہے کہ علیحد گی کا ارادہ شوہر کی طرف سے ہوا ہے بیوی کی طرف سے نہیں بناپر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر نفرت اور روگردانی کا اظہار شوہر کی طرف سے ہو تو اس کے لیے مہر میں سے کسی چیز کو واپس لے لینا مکروہ ہوگا لیکن اگر نفرت اور سرکشی کا اظہار بیوی کی طرف سے ہو توشوہر کے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا اس لیے کہ قول باری ہے (فان خفتم الایقیما حدود اللہ فلاجناح علیھما فیما افتدت بہ) اور جیسا کہ پہلے گذرچکا ہے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ فاحشہ سے مراد نشوز یعنی نفرت، روگردانی اور نافرمانی ہے اور دوسرے حضرات کے نزدیک اس سے مراد بدکاری ہے۔ نیز یہ قول باری بھی ہے (فان خفتم الایقیما حدود اللہ فلاجناح علیھما فیماافتدت بہ اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر اس مال میں کوئی گناہ نہیں جو عورت اپنی ذات کے فدیہ کے طورپراداکرے) ۔ بعض کا قول ہے کہ یہ حکم قول باری (وان اردتم استبدال زوج مکان زوج) کی بناپر منسوخ ہوچکا ہے۔ لیکن یہ بات غلط ہے اس لیے کہ یہ قول باری اس حالت کی نشاندہی کررہا ہے جس میں نفرت اور روگردانی کا اظہار شوہر کی طرف سے ہواہوجب کہ قول باری (الاان یخافا الا یقیما حدود اللہ) میں ایسی حالت کا ذکر ہوا ہے جو پہلی حالت سے مختلف ہے اور وہ یہ حالت ہے جس میں سرکشی اور نفرت کا اظہار بیوی کی طرف سے ہواہو اور عورت نے بطور فدیہ شوہر کو کوئی رقم دے دی ہو اس یہ حالت پہلی حالت سے مختلف ہے اور ان دونوں حالتوں میں سے ہر ایک کے لیئے مخصوص حکم ہے۔ قول باری ہے (واخذن منکم میثا قاغلیظا، اور انہوں نے تم سے پختہ عہد لے رکھا ہے حسن ابن سیرین قتادہ ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ اس سے مراد بھلے طریقے سے عقدزوجیت میں باقی رکھنا یا اچھے طریقے سے رخصت کردینا ہے۔ جس کا ذکر قول باری (فامساک بمعروف اؤتسریح باحسان) میں ہوا ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ آغاز اسلام میں نکاح کرنے والے سے کہاجاتا کہ ، تمہیں خدا کا واسطریاتوا سے سیدھے طریقے سے اپنی بیوی بنائے رکھنایاپھربھلے طریقے سے اسے رخصت کردینا، مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مراد نکاح کا کلمہ ہے جس کے واسطے سے مرد اپنی ہونے والی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق کو حلال کرلیتا ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے مراد حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے۔ (انمااخذتموھن بامانۃ اللہ واستحللتم فروجن بکلمۃ اللہ، تم نے انہیں اللہ کی امانت کے تحت لیا ہے اور اللہ کے کلمہ کے واسطے سے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لیے حلال کیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
Top