Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 54
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا : اور البتہ ہم نے پھیر پھیر کر بیان کیا فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے مِنْ : سے كُلِّ مَثَلٍ : ہر (طرح) کی مثالیں وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان اَكْثَرَ شَيْءٍ : ہر شے سے زیادہ جَدَلًا : جگھڑنے والا
اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھانے کے) لئے طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں لیکن انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑالو ہے
54:۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے باغ والے شخص کی مثال بیان فرمائی جو خدا کو بھول کر اپنے مال متاع پر مغرور ہوگیا تھا آخر ایک دم میں اس کا باغ جل گیا پھر دنیا کی زیست کی مثال بیان فرمائی کہ جس طرح پیڑوں کا حال ہے کہ زمین میں بیج پڑتا ہے اور اس میں قدرت الٰہی کے طرح طرح کے تصرفات ہو کر وہ پھوٹتا ہے اور پورا ہوجاتا ہے اور روز بروز پودے کو شادابی ہوتی جاتی ہے لیکن اس شادابی کو ہمیشگی نہیں کھیتی کا پیڑ ہے تو تھوڑے دنوں میں وہ کھیتی پک کر کٹ جاتی ہے اور باغ کا پیڑ ہے تو آخر وہ بھی ایک دن سوکھ کر لکڑی ہوجاتا ہے جلنے کے کام میں مکانات بنانے کے کام میں تخت چوکی بنانے کے کام میں اور لکڑی کی چیزوں کے کام میں ہر روز جو لکڑیاں صرف ہوتی ہیں ایک دن یہ سب شاداب پودے تھے ہرے پیڑ تھے آدمی کی پیدائش کا اور زیست کا بھی یہ حال ہے ایک دن ماں کے پیٹ میں نطفہ کا بیج پڑتا ہے قدرت الٰہی کے اس میں طرح طرح کے تصرفات ہو کر پھر بچہ پیدا ہوتا ہے اور پیٹر کے پودا کی طرح دن بدن وہ بچہ بڑھتا جاتا ہے پھر کھیتی کے پیڑ کی طرح کوئی بچہ تھوڑے دنوں میں مر کر نیست ونابود ہوجاتا ہے کوئی باغ کے پیڑ کی طرح کچھ دنوں رہتا ہے پھر فرمایا کہ اس تھوڑے دنوں کی زیست میں جس کسی نے کچھ نیک کام کرلیے تو اچھا ہے نہیں تو سوکھی لکڑی کی طرح ایک دن دوزخ کی آگ ہے اور وہ ہے پھر شیطان کا حال فرمایا کہ وہ تو نافرمانی کر کے مردود بن چکا ہے جو اس کا کہنا مانے گا وہ اسی جیسا ہوجائے گا یہ سب مثالیں فرما کر اس آیت میں فرمایا کہ ہم تو طرح طرح کی مثالیں دے کر انسان کو سمجھا چکے مگر انسان اپنے جھگڑالو پن سے باز نہیں آتا کبھی اللہ کے کلام کو پچھلے لوگوں کی کہانیاں بتلاتا ہے کبھی اللہ کے رسول کو جادوگر کہتا ہے ایسی باتوں سے ہر شخص اپنے حق میں کانٹے بوتا ہے آخر کو خراب ہوگا پچھلی امتوں کی طرح کوئی عذاب آن کر سب ہلاک ہوجاویں گے اور آخرت کا مواخذہ جدا باقی رہے گا پھر آگے فرمایا کہ ہم رسولوں کو نجات کی خوشخبری اور عذاب کا ڈر سنانے کو زمین پر بھیجتے ہیں اگر لوگ وہ ڈر کی باتیں سن کر نہ ڈرے اور کافروں نے اپنے کفر سے اور گناہگاروں نے اپنے گناہوں سے توبہ نہ کی اور نافرمانی کی حد کو پہنچ کر کوئی عذاب اللہ کا آگیا تو پھر پچھتانے سے کچھ نہ ہوگا حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اپنا کلام پاک نازل فرما کر اسی کلام پاک کے ذریعہ سے اور اپنے رسولوں کے دل میں الہام ڈال کر رسول کی حدیث کے ذریعہ سے جو سمجھانے تک اثر پیدا ہوا ہے اس اثر کی ایک نشانی اللہ کے پیغمبر نے بتلائی ہے آدمی کو چاہیے کہ اس نشانی کے پتے سے اپنے دل کا حال کبھی کبھی ٹٹولا کرے وہ نشانی یہ ہے کہ معتبر سند سے صحیح ابن حبان اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ابی امامہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک روز آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضرت آدمی اپنے آپ کو کب خیال کرے کہ میں ایماندار ہوں آپ نے فرمایا کہ جب نیک کام کرنے سے تیرے دل میں ایک طرح کو خوشی اور بدکام کرنے سے ایک طرح کی ندامت پیدا ہو تو جان لیجیو کہ تیرے دل میں ایمان کا اثر ہے اور اس نشانی کے قریب وہ نشانی ہے جو صحیح میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت سے آئی ہے 1 ؎۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص میں نور ایمانی ہوتا ہے اس سے اگر کوئی گناہ ہوجائے تو وہ اپنے آپ کو ایک گر پڑنے والے پہاڑ کے نیچے کھڑا ہوا سمجھتا ہے اور ہر وقت ڈرتا رہتا ہے کہ خدا جانے کس وقت یہ پہاڑ میرے اوپر ٹوٹ پڑے اور جو شخص گناہوں کی بالکل خو پکڑ لیتا ہے اس کو گناہ کرنا ایسا ہے جس طرح ناک پر ایک مکھی بیٹھ گئی۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 16 کتاب الایمان۔
Top