Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 55
وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰى وَ یَسْتَغْفِرُوْا رَبَّهُمْ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمْ سُنَّةُ الْاَوَّلِیْنَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا
وَمَا مَنَعَ : اور نہیں روکا النَّاسَ : لوگ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا : کہ وہ ایمان لائیں اِذْ جَآءَهُمُ : جب آگئی ان کے پاس الْهُدٰى : ہدایت وَيَسْتَغْفِرُوْا : اور وہ بخشش مانگیں رَبَّهُمْ : اپنا رب اِلَّآ : بجز اَنْ : یہ کہ تَاْتِيَهُمْ : ان کے پاس آئے سُنَّةُ : روش (معاملہ) الْاَوَّلِيْنَ : پہلوں کی اَوْ : یا يَاْتِيَهُمُ : آئے ان کے پاس الْعَذَابُ : عذاب قُبُلًا : سامنے کا
اور لوگوں کے پاس جب ہدایت آگئی تو ان کو کس چیز نے منع کیا کہ ایمان لائیں اور اپنے پروردگار سے بخشش مانگیں بجز اس کے کہ (اس بات کے منتظر ہوں کہ) انھیں بھی پہلوں کا سا معاملہ پیش آئے یا ان پر عذاب سامنے آموجود ہو
55۔ 59۔ اوپر کی آیت میں ذکر تھا کہ قرآن کی آیتوں میں طرح طرح کی مثالیں دے کر ان مشرکین مکہ کو سمجھایا جاتا ہے مگر یہ لوگ اپنے جھوٹے جھگڑوں سے باز نہیں آتے کبھی کہتے ہیں اللہ کا رسول انسان نہیں ہوسکتا کوئی فرشتہ ہونا چاہیے کبھی کہتے ہیں اگر تم اللہ کے رسول ہو تو مکہ کے گردو نواح کے پہاڑ ہٹا کر ان کی جگہ کھیتی کی زمین نکال دو ان آیتوں میں فرمایا کہ ان لوگوں کے قرآن کی نصیحت نہ ماننے اور شرک سے باز نہ آنے کا یہی سبب ہے کہ اللہ کے علم غیب کے موافق ان میں سے کچھ لوگوں پر پچھلی امتوں کی طرح دنیا کا کچھ عذاب وقت مقررہ سے پہلے ان میں کے جو لوگ شرک کی حالت پر مرجائیں گے ان کے سر پر آخرت کا عذاب ناگہاں آن کھڑا ہوگا۔ پھر فرمایا اللہ نے رسول اس لیے بھیجے ہیں کہ وہ نافرمان لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈراویں اور فرمانبردار لوگوں کو عقبیٰ کی بہبودی کی خوشی سنائیں۔ اللہ کے رسول اس واسطے نہیں بھیجے گئے کہ ان سے اصحاب کہف یا ذوالقرنین کے قصے پوچھے جائیں یا مکہ کے گردو نواح کے پہاڑوں کو ہٹا دینے یا صفاو مروہ کے سونا ہوجانے کی خواہش پیش کی جائے یا قرآن کے احکام کو ہنسی میں اڑا دیا جائے ایسی باتوں سے مطلب ان لوگوں کا یہ ہے کہ یہ لوگ ایسے جھوٹے جھگڑوں سے قرآن کی نصیحت کا اثر اوروں کے دلوں پر بھی جمنا نہیں چاہتے لیکن ان کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوسکتا جو اللہ چاہے گا وہ ہوگا اور اللہ کے ارادہ کے موافق جو کچھ ہوگا وہ ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔ سورة حشر میں آئے گا کہ مشرکین مکہ تو اپنے ان جھوٹے جھگڑوں سے یہ چاہتے ہی رہے کہ قرآن نصیحت کا اثر لوگوں کے دلوں پر جمنے نہ پائے مگر اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے موافق قبیلہ خزرج کے کچھ لوگ اسلام سے پہلے کی رسم کے موافق مدینہ سے مکہ میں حج کو آئے اور قرآن کی آیتیں سن کر قرآن کی نصیحت کا اثر ان کے دل میں اچھی طرح جم گیا اور منیٰ کی پہاڑ کی گھاٹی میں انہوں نے اسلام کی بیعت کی جس بیعت میں اللہ کے رسول ﷺ نے بارہ شخص نقیب اسلام پھیلانے والے اس قبیلہ میں سے مقرر کیے اور اس بیعت کے بعد اہل مدینہ کا نام انصار قرار پایا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے مددگار ہیں۔ صحیح بخاری وغیرہ میں عبادہ ؓ بن صامت سے جو روایتیں ہیں ان میں یہ بیعت کا قصہ تفصیل سے ہے اصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں میں قریش کے جھوٹے جھگڑوں کا اور ان جھگڑوں سے قرآن کی نصیحت کا اثر لوگوں کے دل پر نہ جمنے دینے کا ذکر مختصر طور پر ہے اس بیعت کے قصے سے اس کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ یہ اہل مکہ اپنے جھوٹے جھگڑوں سے جو کچھ چاہتے ہیں وہ ہرگز نہ ہوگا بلکہ اللہ جو چاہے گا وہی ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے موافق جو کچھ ہوگا وہ ان اہل مکہ کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا کہ قرآن کی نصیحت انصار کے دل پر ایسی جم جائے گی کہ ان انصار کی مدد سے آخر کو مکہ فتح ہوجائے گا اور مشرکین مکہ کی یہاں تک ذلت ہوگی کہ اللہ کے رسول ان مشرکوں کے جھوٹے معبودوں کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے مار مار کر زمین پر گرادیں گے اور کسی مشرک کو اتنی جرأت نہ ہوگی کہ وہ اپنے جھوٹے معبودوں کی کچھ حمایت کرسکے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی اور صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی وہ حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے 1 ؎۔ جس میں بتوں کو زمین پر گرا دینے کا قصہ ہے اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی وہ حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے 2 ؎ جس میں بدر کی لڑائی کے وقت ان مشرکین میں کے بڑے بڑے سرکش سرداروں کے نہایت ذلت سے مارے جانے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوجانے کا قصہ ہے ان آیتوں میں دنیا اور آخرت کے عذاب کا جو وعدہ ہے اس کا ظہور اوپر کی روایتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے پھر فرمایا قرآن کی نصیحت کا تو وہ اثر ہے کہ قبیلہ خزرج کے لوگ چند روز کے لیے مکہ میں آئے اور قرآن کی نصیحت کا اثر ان کے دل پر ہوگیا اس صورت میں ان مکہ کے مشرکوں سے بڑھ کر اپنی جان پر ظلم کرنے والا دنیا میں کون ہوسکتا ہے۔ تیرہ برس تک ان کو قرآن کی آیتوں سے طرح طرح کی نصیحت کی گئی مگر ان لوگوں نے اس نصیحت کی طرف کچھ رخ نہیں کیا اور اپنی سرکشی پر اڑے رہے پھر فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے علم غیب میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں اس لیے قرآن کی نصیحت کے سمجھنے سے ان کے دلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور اس کے سننے سے ان کے کان بہرے ہیں جس کے سبب سے اے رسول اللہ کے قرآن کی تیرہ برس کی نصیحت نے ان کو کچھ فائدہ نہیں پہنچایا اور نہ آگے ایسے لوگوں کو قرآن کی نصیحت سے کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے پہلے ایسے لوگوں کو مہلت دیتا ہے عذاب کے بھیجنے میں جلدی نہیں کرتا پھر جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہیں آتے تو ان کو کسی عذاب میں پکڑ لیتا ہے۔ چناچہ جس طرح پچھلی امتیں طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوئی ہیں ان سب کے عذاب میں یہی عادت الٰہی جاری رہی ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے 3 ؎ کہ نافرمان لوگوں کو اللہ تعالیٰ پہلے مہلت دیتا ہے اس مہلت کے زمانہ میں اگر وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو پھر کسی طرح کے عذاب سے ان کو بالکل ہلاک کردیتا ہے عادت الٰہی جو اوپر بیان کی گئی ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی کی حدیث بھی گزر چکی ہے 4 ؎۔ کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل اب جس قابل جو شخص پیدا ہوا ہے ویسے کام اس کو اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں۔ آیتوں میں جن لوگوں کا یہ حال بیان کیا گیا کہ قرآن کی نصیحت کے سمجھنے سے ان کے دل پر پردہ پڑا ہوا ہے اور اس کے سننے سے ان کے کان بہرے ہیں یہ حدیث ان کے حال کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کے علم میں دوزخی ٹھہر چکے ہیں اس لیے ان کے کام بھی ویسے ہی ہیں۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 614 ج 6 باب این رکز البنی ﷺ الخ 2 ؎ تفسیر ہذاص 23 ج 3۔ 3 ؎ مثلا تفسیر ہذاص 53 ج 3 4 ؎ تفسیر ہذاص 90 ج 3
Top